یہ لاک ڈاؤن بڑے کمال کی چیز ہے۔ لاک ڈاؤن اور لاک اپ کے درمیان کتنا فرق ہے، یہ تو “اہل بصیرت” ہی بتا سکتے ہیں، البتہ مجھے اس دوران میں معاشرتی رویوں کا مشاہدہ کرنے کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے کو ملا، مثلاً ہمارے ہاں آن لائن تعلیم و تربیت کے کیا امکانات ہیں، اس کے ذریعے سیکھنے کا عمل کتنا مؤثر ہو سکتا ہے، یو ٹیوب چینل چلانے اور ویڈیوز بنانے کے کیا لوازمات ہیں، فراغت کے اوقات کو کیسے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح کی دوسری بہت سی باتیں۔ دوسری بہت سی باتوں میں سے ایک یاد ماضی کی تلخ و شیریں جھلکیاں بھی ہیں، جنہیں کسی شاعر نے عذاب کہہ رکھا ہے۔
یادوں کی آنکھ مچولی میں کہیں سے سرسراتا ہوا ایک جھونکا آتا اور لبوں پر تبسم بکھیرتا ہوا نکل جاتا۔ اگلے ہی لمحے کسی بچھڑے ہوئے کی سلگتی یاد پلکوں کو نم کر جاتی۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ناں کہ “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں” تو زمانے کی فلم کے دھندلے مناظر جیسے پھر سے پردہ سکرین پر نمودار ہونے لگے۔ پھر سترہ اپریل آ گیا جو مجھے بتیس سال پیچھے لے گیا۔ اوہ، ٹھہریں، میں کہاں نکل گیا۔ داستاں اس سے ذرا پہلے شروع ہوتی ہے۔
1983-84 کی سرمائی تعطیلات ہو چکی تھیں۔مجھے یاد پڑتا ہے، انہی سالوں میں اسلامی جمعیت طلبہ نے کوچنگ سنٹرز کی روایت شروع کی تھی۔طالب علمی کے زمانے ہی میں ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب، پروفیسر قاسم بن حسن صاحب، عبدالمتین عابد صاحب، خواجہ مسعود اقبال صاحب ،میرے چھوٹے بھائی شکیل احمد شکیل صاحب اور راقم سمیت ہم لوگ رضا کارانہ طور پر میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔راولاکوٹ کی ہجیرہ روڈ پر واقع راول گرین ہوٹل میں کوچنگ کلاسز ہوتیں جن میں طلبہ کی اچھی خاصی تعداد شریک ہوتی۔ان میں سے بہت سے “بچے” اب بھی رابطے میں ہیں۔یہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی تھی جس نے اس وقت مجھ جیسے بے سمت طالب علم میں سے بھی کچھ نہ کچھ ڈھونڈ نکالا۔مختلف تنظیمی ذمہ داریاں جن میں “نشر و اشاعت” سے لے کرمجلہ “تحریک” کی ادارت اور درس و تدریس شامل ہیں، سب ہی نے آگے چل کر میری زندگی کی راہ متعین کرنے اور اس میں مجھے اعتماد دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس زمانے میں دو ہی بڑے اخبار تھے، روزنامہ جنگ اور روزنامہ نوائے وقت۔کم و بیش ہر ہفتے یا دوسرے ہفتے ان دونوں اخبارات کے تعلیمی ایڈیشنز میں میری ارسال کردہ رپورٹ چھپتی۔ہماری خبریں تواتر سے شائع ہوتیں۔اس سلسلے میں ہم نوائے وقت کے نامہ نگار جناب عزیز کیانی، ان کے برادر حفیظ کیانی مرحوم اور جنگ کے نامہ نگار جناب حمید اللہ صاحب سےخصوصی رابطہ رکھتے۔خیر، اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔
اسی عرصے کی بات ہے، تعلیمی اداروں میں سرمائی تعطیلات کے دوران میں، ہمارے گاوں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت سردار محمد عارف خان صاحب نے ہاوسنگ سکیم راولاکوٹ میں واقع سردار رشید حسرت مرحوم کے مکان میں ٹیوشن سنٹر کا آغاز کیا۔عارف صاحب مرحوم کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، بے پناہ صلاحیتوں کے مالک انتہائی ذہین انسان تھے۔ہر دم متحرک۔اس لحاظ سے منفرد کہ ہوا کے رخ پر چلنا شاید ان کی سرشت میں تھا ہی نہیں۔جس بات کو حق سمجھتے اس کا برملا اظہار کرتے۔ان کی شہرت بہت اچھے استاد کی تھی، کہ اپنے کیریر کا ایک قیمتی حصہ انہوں نے تدریس کے مقدس کام کو دیا تھا۔ گو کہ بعد میں میدان سیاست میں قدم رکھا، لیکن اندر کا استاد کہاں جائے۔ ہمارے گھرانے سے قریبی تعلق کی وجہ سے انہوں نے مجھے اپنے ٹیوشن سنٹر میں پڑھانے کی دعوت دے ڈالی۔کہاں خاکسار اور کہاں تدریس کا فن، شاید عارف صاحب نے ہمارے بزرگوں کی نسبت سے ہمیں بھی استاد تصور کر لیا تھا یا انہیں ہماری کوچنگ سنٹر والی “حرکتوں” کی بھنک پڑ چکی تھی۔بہر حال، حکم پر سر تسلیم خم کیا۔ایک ماہ پڑھانے کا معاوضہ مجھے آٹھ سو روپے ملا، جو اس وقت جیب خرچ کے لیے کافی معقول رقم لگی۔
عارف صاحب کی شفقت مجھے بعد میں بھی حاصل رہی، بلکہ ان کےصاحب زادے سرفراز عارف اور آفتاب عارف اب تک محبت و احترام کا رشتہ نبھا رہے ہیں۔1985 کے دسمبر میں بی ایس سی آنرز ایگری کلچر کا فائنل امتحان دیا۔1986 کے اوائل کی بات ہے، رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک دن ہمارے سینئر ساتھی غلام یٰسین صاحب ملے۔رواں سال ان کا انتقال ہو گیا۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی آخرت اچھی کرے۔نظریاتی تعلق تھا اور دوستی کا رشتہ بھی۔کہنے لگے، آپ سرکاری سکول میں ٹیچنگ کیوں نہیں کر لیتے۔میں نے حامی بھر لی۔ان کے ماموں سردار محمد ایوب خان صاحب مرحوم ناظم اعلیٰ تعلیمات سکولز تھے۔سکول میں میرے والد محترم کے ہم جماعت بھی رہ چکے تھے۔غلام یٰسین صاحب اور میں مظفرآباد چلے گئے۔ایوب صاحب کے ہاں قیام کیا۔گورنمنٹ ہائی سکول دھمنی میں ایگری کلچر ٹیچر کی اسامی خالی تھی۔میں اس کی تجویز بنوا کر ساتھ لے گیا تھا۔ تقرری کی درخواست جمع کروائی اور ہم واپس آ گئے۔ان دنوں سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی اسامیاں دستیاب تھیں، سو چند دن بعد تقرری کا پروانہ بذریعہ ڈاک مجھے موصول ہو گیا۔یوں میں ہائی سکول دھمنی میں ایگری کلچر کے استاد کے طور پر حاضر ہو گیا۔
نئی نئی تقرری اور باقاعدہ استاد بننے کا خمار ہی کچھ اور تھا۔دوسرے مضامین کے ساتھ زراعت کا مضمون بھی پڑھانے کو ملا۔دوتھان کے رہنے والے سرور صاحب ہیڈ ماسٹر تھے۔بیالوجی پڑھاتے ہوئے خیال آیا کہ بچوں کو پریکٹیکل کروانا چاہیے۔لیبارٹری تلاش کرنے کی کوشش کی تو ایک ساتھی نے ایک شکستہ سی الماری کی طرف اشارہ کیا، جسے لیبارٹری کا نام دیا گیا تھا۔شاید سکول کے وسائل اتنے ہی تھے۔خیر، الماری کھولی، سامان سے گرد جھاڑی اور اپنے تئیں بچوں کو پریکٹیکل کروانے لگا۔چند اساتذہ نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی جن میں محترم اسلم صاحب، اسی گاوں سے تعلق رکھنے والے دو خالد صاحبان، حمید صاحب اور ان کے بھائی محمود صاحب اور ارشد صاحب شامل تھے۔ایک دن زراعت کے پریکٹیکل کے لیے مٹی کے نمونوں کی ضرورت پڑی۔میں پلاسٹک کے تھیلوں میں مٹی کے بہت سے نمونے گھر سے اٹھا لایا۔میں نے محسوس کیا، چند اساتذہ کی چبھتی ہوئی نظریں زیر لب مسکراہٹوں کے ساتھ میرا تعاقب کر رہی ہیں۔مجھے لگا جیسے وہ دل ہی دل میں مصطفیٰ قریشی کا مشہور فلمی ڈائیلاگ “نواں آیاں اے سوہنیاں” دہرا رہے ہوں۔کچھ ایسے ہی ملے جلے رویے تھے، اور کچھ میرا شوق پرواز کہ سکول کے ساتھ میرا رومانس زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ڈھائی ماہ بعد ایک دن چپ چاپ میں نے سکول کی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔
عبدالمتین صاحب کے ساتھ میری پکی جوڑی تھی، یوں سمجھیے یک جان دو قالب۔نہ صرف گھر کی دیواریں بلکہ دل بھی جڑے ہوئے تھے۔ہم ایک دوسرے کی نظروں کا مطلب بھی سمجھتے تھے۔بہت سے کام ہم نے مل کر سر انجام دیے۔ان ہی میں سے ایک ہجیرہ روڈ پر “کتاب گھر” کے نام سے کتابوں اور سٹیشنری کی دکان تھی، جو اگرچہ ہمارے سینئر ساتھی محمود احمد صاحب نے شروع کی تھی لیکن 1986میں ہم نے ان سے لے لی۔ہم دونوں کی پارٹنرشپ میں کتاب گھر خوب چل پڑا ۔بعد میں غم دوراں نے کتاب گھر سے ہمارا فوکس کچھ دوسرے امور کی طرف کر دیا اور یہ دکان ایک عرصہ تک ہمارے والد محترم سنبھالتے رہے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses