Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

غیر معمولی بچوں کی پہچان

غیر معمولی بچوں کی پہچان

جمیل احمد

اس سے پہلے کہ بہتر سال قبل قائم ہونے والی ایک انوکھی تنظیم کا ذکر کیا جائے، ہم ایک غیر معمولی ذہین بچے کی دلچسپ مثال شئیر کر لیتے ہیں۔ 2013 کی بات ہے، ڈھائی سالہ برطانوی بچے ایڈم کربی نے غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ایڈم نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی (کیلیفورنیا) کے اعلیٰ ذہانت کی جانچ کے امتحان بینٹ انٹیلی جینس اسکیل میں 141 نمبروں سے شاندار کامیابی حاصل کی، جو اس امتحان میں اعلیٰ درجے کی ذہانت رکھنے والوں کا اسکور ہے۔

ایڈم کی عمر اس وقت صرف 29 ماہ تھی اور وہ ابھی ٹھیک سے جملے بھی ادا نہیں کر سکتا تھا لیکن وہ 100 سے زائد الفاظ جانتا تھا۔ اسے 10سے زائد پہاڑے یاد تھے۔ وہ چیزوں کے نام، سیاروں کے نام، ملکوں کے نام، براعظموں کے نام جانتا تھا اور انہیں نقشے میں شناخت بھی کر سکتا تھا۔ 1000 تک گنتی گننے کے ساتھ ساتھ اسےجمع، تفریق اور جیومیٹری کے زاویوں کی بھی پہچان تھی۔ ایڈم کو شیکسپئیر کی کتابیں سننا اچھا لگتا تھا۔ ڈھائی سال سے کم عمر ہی میں وہ جاپانی اور ہسپانوی زبان میں بول سکتا تھا، بہت سے الفاظ لکھ سکتا تھا اور انہیں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ٹائپ کر سکتا تھا۔ ایڈم کے آئی کیو ٹیسٹ کے حاصل کردہ نمبروں کے مطابق، اسے پڑھائی میں پانچویں جماعت کے طالب علم کا درجہ دیا گیا، جبکہ ریڈنگ میں ایڈم کو ساتویں جماعت کے طالب علم کے برابر بتایا گیا۔

ایڈم کے والدین کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا بچہ عام بچوں سے مختلف ہے اور اس میں سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے۔ جب ایڈم صرف دس ہفتے کا تھا تب سے ہماری ہر بات پر واضح ردعمل ظاہر کرتا تھا۔ ان کے مطابق عام طور پرجس عمر میں بچے صرف کھسکنا یا چلنا سیکھتے ہیں، ایڈم اس وقت کتابیں پڑھنا پسند کرتا تھا۔ اس کے والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایڈم ایک غیر معمولی بچہ ہے۔ اس نے دس ماہ کی عمر سے کتابیں پڑھنا شروع کر دی تھیں۔ اس کی ذہنی پختگی میں حیرت انگیز طور دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ وہ ایک پرجوش اور پھرتیلا بچہ تھا جو ہر وقت خوش نظر آتا تھا اور سب سے بڑھ کر اس کی مزاح کی حس بہت اچھی تھی۔ ایڈم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ برطانوی “مینسا” کا سب سے کم عمر رکن بنا۔

یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں

مینسا وہی تنظیم ہے، جس کی طرف ہم نے کالم کے شروع میں اشارہ کیا ہے۔ یہ 1946 کی بات ہے، برطانیہ کے ایک قانون دان رونالڈ بیرل اور ایک سائنس دان اور قانون دان ڈاکٹر لانس وئر کو خیال سوجھا کہ دنیا کے ذہین ترین افراد کی ایک تنظیم قائم کی جائے، جو سرحد، رنگ، نسل، قومیت اور مذہب سے بالا تر ہو۔ آئیڈیا ہٹ ہو گیا۔ معیار یہ طے ہوا کہ ذہانت کے اعتبار سے دنیا کے سب سے اوپر والے صرف دو فی صد افراد کو تنظیم کی رکنیت دی جائے گی۔  اس معیار کے مطابق صرف انہی لوگوں کو رکنیت ملتی ہے جن کے ذہنی درجے کو کسی معیاری ذہنی امتحان میں ناپا جا چکا ہو۔ مینسا (Mensa) لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے میز، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ برابری کی سطح پر آپس میں مل بیٹھنے اور تبادلہ خیال کرنے والوں کی تنظیم ہے۔

اس وقت دنیا بھر کے سو سے زیادہ ممالک میں مینسا کے تقریباً ایک لاکھ چونتیس ہزار ارکان ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ بچوں کو بھی مینسا کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ پاکستان سمیت تقریباً پچاس ممالک میں مینسا کے  دفاتر موجود ہیں۔ تنظیم کی خوبصورتی دیکھیے کہ دو سال سے ایک سو چھے سال کی عمر تک کے افراد اس کے ممبر ہیں، جن میں پری سکول سے تعلیم کو خیر باد کہنے والے، کئی بار پی ایچ ڈی کرنے والے، سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے والوں سے ارب پتی، ٹرک ڈرائیور سے لے کر سائنس دان، استاد، آگ بجھانے کا عملہ، کمپیوٹر پروگرامر، کسان، آرٹسٹ، فوجی، موسیقار، مزدور، پولیس مین، غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ بعض ممبر تو آئی کیو سکور میں آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

مختصر یہ کہ مینسا دنیا میں ذہین ترین افراد کو ڈھونڈنے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں مصروف ہے۔ اس تفصیل میں سے ایک سوال ابھرتا ہے کہ انتہائی ذہین افراد میں کون سی خصوصیات مشترک ہیں۔ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ خدا داد صلاحیتوں کے حامل اکثر بچے جلدی بولنا سیکھ لیتے ہیں اور ان کا ذخیرہ الفاظ اپنے ہم عمر بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس معاملے میں آگے ہونے کی وجہ سے وہ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ تیزی سے سوچ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ تخیل کی بلند سطح کو چھو سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں، اپنی ذات کے حصار میں بند ہونے کی وجہ سے حساس ہو جاتے ہیں اور دوسروں سے میل جول کم کر لیتے ہیں۔

چونکہ ان کی سوچنے کی صلاحیت بہت بلند ہوتی ہے، اس لیے اگر ابتدائی عمر میں ان کی صلاحیت کا اعتراف نہ کیا جائے تو ان کی جذباتی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ زبردست تخلیقی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں اور حقائق کے آپس میں میں ربط کو جانچ کر رجحانات کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس صلاحیت کی بنیاد پر وہ دوسروں کے مقابلے میں تیزی سے اور بعض صورتوں میں قبل از وقت نتائج تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے کہیں کہیں وہ اپنے ماحول میں”مس فٹ” ہو جاتے ہیں۔ وہ کمال پرست یعنی “پرفیکشنسٹ” ہوتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے ہی طے کردہ معیار کو حاصل کرنے سے گھبراتے بھی ہیں۔ وہ روایتی طریقوں سے سیکھنے اور رٹا لگانے کی بجائے معلومات و حقائق کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے طریقے سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ “روایتی” کلاس روم میں بور ہو جاتے ہیں۔

اپنی متجسس طبیعت کی بنا پر وہ بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں۔ اگر ان کے تجسّس کی تسکین نہ ہو تو بعض اوقات کلاس میں ان کی کارکردگی گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر مزید بات کی جا سکتی ہے، لیکن سردست میں کہنا چاہوں گا کہ ممکن ہے ہمارے آس پاس ایڈم کربی جیسے بچے پروان چڑھ رہے ہوں جو کسی وجہ سے ہماری نظروں سے اوجھل ہوں۔ ان خدا داد صلاحیتوں کے حامل بچوں کی پہچان کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ اس بارے میں بنیادی باتوں سے واقفیت رکھتے ہوں اور ایسے بچوں کی تربیت اور تدریس کے موزوں طریقے اختیار کر سکتے ہوں۔ کیا خبر ہمارے بچوں میں کوئی کل کا آئن سٹائن، سٹیفن ہاکنگ یا اس سے بھی بلند درجے کی شخصیت موجود ہو۔