Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

عقلمندوں کی کہانیاں

عقلمندوں کی کہانیاں

جمیل احمد

آج ہم آپ کے لیے عقلمندوں کی کہانیاں پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے انہیں پڑھ کر آپ نہ صرف محظوظ ہوں گے بلکہ ان سے حاصل ہونے والے سبق دوسروں کو بھی سکھائیں گے۔

وقت اور محبت

کہتے ہیں  ایک ویران جزیرے پر کچھ  احساسات رہتے تھے۔ خوشی، غم، علم، غصہ، اعتماد اور محبت سب ہی وہاں تھے۔ ایک دن اعلان ہوا کہ جزیرہ ڈوبنے والا ہے، اس لیے سب کو جلد از جلد جزیرہ خالی کرنا ہوگا یا مرنے کے لیے تیار رہنا  ہوگا۔ تمام جذبات نے جزیرہ چھوڑنے کے لیے اپنی اپنی کشتیوں کو تیار کرنا شروع کر دیا۔صرف محبت تھی جس نے آخری لمحے تک جزیرے پر رہنے  کا فیصلہ کیا۔

جزیرہ تقریبا ڈوب چکا تھا۔اب  محبت وہاں سے نکلنا  چاہتی تھی، لیکن اس کے لیے کوئی کشتی نہیں بچی تھی۔ محبت نے پریشانی کے عالم میں  مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔

دولتمندی اپنی سب سے خوبصورت کشتی میں قریب سے گزری۔

محبت نے پوچھا، “دولتمندی، کیا تم مجھے اپنے ساتھ لے جا سکتی ہو؟” دولتمندی نے جواب دیا، “نہیں، میرے لیے تمہیں ساتھ لے جانا ممکن نہیں۔ میری کشتی میں بہت سا  سونا چاندی ہے اور افسوس کہ یہاں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔”

اس کے بعد  محبت نے اعتماد  کو دیکھا ۔وہ بھی ایک خوبصورت کشتی  میں سوار تھا۔

“اعتماد، براہ کرم میری مدد کرو!” محبت نے  التجا کی۔

“میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔تم گیلی  ہو۔ اگر میں نے تمہیں کشتی میں سوار کیا  تو میری کشتی بھی گیلی ہو جائے گی۔‘‘ اعتماد  نے جواب دیا۔

اداسی بھی قریب ہی تھی۔ محبت نے اسے بھی  مدد کے لیے پکارا۔

 “اداسی، مجھے ساتھ لے جاؤ۔”

 اداسی نے بے دلی سے  جواب دیا، “اوہ… محبت، میں بہت   اداس ہوں ۔مجھے اکیلے ہی رہنے دو۔”

محبت نے دیکھا، خوشی بھی وہاں سے گزری، لیکن وہ اتنی خوش تھی کہ محبت کی پکار اسے سنائی ہی نہ دی۔

اب محبت سخت مایوسی کے عالم میں  تھی۔ اسے اپنی موت لمحہ بہ لمحہ قریب آتی دکھائی دینے لگی۔ اچانک ایک بزرگ کی شفقت بھری  آواز آئی، “محبت ، ادھر آؤ، میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔”

بزرگ اسے ایک محفوظ جگہ پر چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ محبت خوشی کے عالم میں بزرگ سے اس کا نام پوچھنا بھول گئی۔

محبت کو احساس تھا کہ وہ اس بزرگ کی شفقت کی کس قدر  مقروض ہے، محبت نے حکمت   سے پوچھا، “مجھے اپنے ساتھ لانے والا کون تھا؟”

“یہ وقت تھا۔” حکمت نے جواب دیا۔

 “وقت؟ لیکن وقت نے میری مدد کیوں کی؟” محبت نے پوچھا۔

حکمت مسکرائی اور پیار سے جواب دیا،

“کیونکہ صرف وقت ہی یہ سمجھ سکتا  ہے کہ محبت کتنی قیمتی ہے۔”

ایک ہزار بار گرنے والے شاگرد کی کہانی

ایک استاد اپنے شاگرد کو جنگل کی سیر پر لے جا رہا  تھا۔ بوڑھا  ہونے کے باوجود استاد  چستی کے ساتھ چلتا رہا  جبکہ نوجوان شاگرد بار  بار پھسلتا اور گرتا رہا۔

نوجوان ہر بار اٹھ کر غصے سے بڑبڑاتا لیکن اپنے استاد  کے احترام میں اس  کے پیچھے چلتا رہا۔

طویل سفر کے بعدکہیں رکے بغیر بالآخر  وہ ایک مقام پر پہنچ کر کچھ دیر کے لیے رکے۔

’’آج آپ  نے مجھے کچھ نہیں سکھایا۔‘‘ شاگرد نے ہزارویں بار گرنے کے بعد قدرے  ناراض ہوکر کہا۔

’’میں نے تمہیں ایک بات سکھائی ہے، لیکن تم اسے سمجھ نہیں سکے،‘‘ استاد نے جواب دیا۔

“میں تمہیں  یہ سکھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ زندگی میں غلطیوں سے کیسے نمٹا جائے۔”

“تو میں ان کے ساتھ کیسے نمٹوں؟”شاگرد نے حیرت سے پوچھا۔

استاد  نے جواب دیا، “جتنی بار  تم  گرے توراستے  کو کوسنے کی  بجائے، تمہیں  پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کہ تم  کس وجہ سے پھسلے تھے۔”

ایک طالب علم جس نے دو بار چوری کی

کسی دانا کے درس میں  کلاس  نے ایک طالب علم کو چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ یہ مسئلہ دانا  کے سامنے پیش کیا گیا ۔اسے پکڑنے والوں کی درخواست تھی کہ چور کو  گھر بھیج دیا جائے۔ لیکن، دانا  نے طالب علم کے عمل کو نظر انداز کردیا۔

کچھ دنوں بعدطالب علم دوبارہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا، لیکن دانا  نے اس مسئلے کو پھر سے نظر انداز کر دیا۔ دانا  کے ردعمل نے دوسرے طالب علموں  کو مشتعل کردیا۔ ان سب  نے ایک درخواست  پر دستخط کیے جس میں چور کو کلاس  سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ۔

دانا استاد  نے عرضی پڑھی تو اس نے تمام طلبہ کو اپنے پاس  بلایا۔

’’میں جانتا ہوں تم سب عقلمند ہو‘‘ اس نے طالب علموں  سے کہا، “تم جانتے ہو کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ تم چاہو تو کہیں اور جا کر تعلیم حاصل کر سکتے ہو، لیکن تمہارے  اس غریب بھائی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اچھا ئی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ اگر میں بھی اسے نہیں سکھاؤں  گا تو اسے کون سکھائے گا؟ میں اسے پڑھاتا رہوں گا، چاہے تم میں سے کوئی ایک بھی کلاس میں نہ رہے۔”

چوری کرنے والے طالب علم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کی دوبارہ چوری کرنے کی خواہش ختم ہوچکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پرانی کہانیاں نئے سبق

عقلمند عورت اور قیمتی پتھر

ایک عقلمند عورت پہاڑوں میں سفر کر رہی تھی۔ اسے ندی میں ایک قیمتی پتھر ملا۔ اگلے دن اس کی ملاقات ایک اور مسافر سے ہوئی جو بھوکا تھا۔عقلمند عورت نے اسے کھانا دینے  کے لیے اپنا تھیلا  کھولا۔ بھوکے مسافر کی نظر جب  قیمتی پتھر پر پڑی تو اس نے  عورت سے کہا کہ وہ پتھر اسے دے دے۔ عورت  نے کسی ہچکچاہٹ کےبغیر  پتھر مسافر کو دے دیا۔ مسافر اپنی خوش قسمتی پر شادمانی کے عالم میں  واپس  چلا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ پتھر اس کی زندگی بدلنے  کے لیے کافی ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ کچھ دنوں بعد وہ اس عقلمند عورت کوپتھر  واپس کر نے کے لیے اسے تلاش کرتا ہوا آپہنچا۔

“میں سوچتا رہا،” اس نے کہا، “مجھے معلوم ہے  کہ یہ پتھر کتنا قیمتی ہے، لیکن میں اس امید پر یہ پتھر آپ کو واپس کر رہا ہوں  کہ آپ مجھے اس سے بھی زیادہ قیمتی چیز دے سکتی  ہیں۔ آپ مجھے وہ جذبہ ، وہ دانائی دے دیں ، جس نے آپ کو مجھے اتنی  قیمتی چیز دینے کے قابل بنایا۔ “

یہ بھی پڑھیں: پانچ کہانیاں پانچ سبق

جنت اور جہنم

ایک نوجوان زندگی کے راز وں کی تلاش میں   شہر شہر گاؤں گاؤں  گھوم رہا تھا۔

کئی دنوں کے سفر کے بعداسے ایک عقلمند شخص ملا۔

 “براہ کرم مجھے جنت اور جہنم کا راستہ بتائیں۔”نوجوان نے درخواست کی۔

بوڑھے عقلمند  نے ایک نظر نوجوان  پر ڈالی اور ہنستے ہوئے بولا، “اپنے آپ کو  دیکھو! تم جنت اور جہنم کا راستہ دیکھنا چاہتے ہو؟ اپنی موٹی توند کو دیکھو… تم اپنی بھوک پر بھی قابو نہیں رکھ سکتے، اور تم جنت اور جہنم کے طریقے سیکھنا چاہتے ہو… ، یہ کیا مذاق ہے!”

نوجوان سخت  شرمندگی سے دوچار ہوا۔لیکن جلد ہی اس کی شرمندگی  غصے میں بدل گئی۔ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور بے اختیار اس کا ہاتھ تلوار کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اپنی توہین کا بدلہ چکانا چاہتا  تھا۔

 “میں تمہارا سر تن سے جدا کر  دوں گا!” اس نے تلوار بلند کرتے  ہوئے اعلان کیا۔

عقلمند شخص نوجوان  کی طرف مڑا  اور پرسکون لہجے  میں کہا، “یہ جہنم ہے۔”

نوجوان کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اس نے عقلمند شخص کی بات  میں دانشمندی اور رحم دلی کی جھلک دیکھ لی تھی۔ اس کا دل یکسر  بدل گیا۔ وہ دل میں عقلمند شخص کے لیے شکر اور تعریف کے جذبات لیے  گھٹنوں کے بل گر گیا۔

“اور یہ  جنت ہے”عقلمند شخص  نے کہا۔

آپ نے ان کہانیوں سے کیا سبق اخذ کیا، ہمیں ضرور بتائیے!

3 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email