Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

صندوق سے باہر

صندوق سے باہر

جمیل احمد

کہتے ہیں کئی سو سال پہلے اٹلی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک چھوٹا تاجر رہتا تھا۔ اسے مجبوراً قصبے کے بڑے ساہو کار سے قرض لینا پڑا۔ دن گزرتے گئے حتیٰ کہ قرض کی ادائیگی کا وقت آ گیا۔ تاجر اب بھی قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس نے ساہو کار سے قرض معاف کرنے کی درخواست کر دی۔ ساہو کار بد صورت سا بوڑھا شخص تھا۔ اس نے تاجر کی خوب صورت بیٹی کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اس کی نیت میں فتور آ گیا، لہٰذا اس نے تاجر کے ساتھ ڈیل کرنے کی ٹھانی۔ ڈیل کی شرط یہ تھی کہ ساہو کار ایک تھیلی میں دو کنکر رکھے گا، ایک سیاہ اور دوسرا سفید۔ تاجر کی بیٹی بغیر دیکھے تھیلی میں ہاتھ ڈالے گی۔ اگر سیاہ کنکر نکلا تو تاجر کا قرض معاف ہو جائے گا، لیکن اسے بیٹی کی شادی بوڑھے ساہو کار سے کرنی ہو گی۔ اگر سفید کنکر نکلا تو قرض معاف ہو جائے گا البتہ اس صورت میں شادی کی شرط نہیں ہوگی۔ ڈیل طے ہو گئی۔

ساہو کار جھکا اور تاجر کے صحن سے دو کنکر اٹھا کر تھیلی میں ڈال دیے۔ اسی اثنا میں تاجر کی بیٹی نے دیکھا کہ مکار ساہو کار نے تھیلی میں دونوں سیاہ رنگ کے کنکر ڈال دیے ہیں۔ اب تاجر کی بیٹی کی باری تھی۔ اس کے پاس بظاہر تین راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ تھیلی سے کنکر نکالنے سے انکار کر دیتی۔ دوسرا یہ کہ وہ دونوں کنکر نکالتی اور ساہو کار کی مکاری کو بے نقاب کر دیتی، اور تیسرا یہ کہ کوئی ایک کنکر اٹھاتی اور باپ کی آزادی کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیتی۔ اس کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا تھا۔ اس کا کپکپاتا ہوا ہاتھ تھیلی کی طرف بڑھا، اور اس نے ایک کنکر چن لیا۔ ایک خیال اس کے دماغ میں بجلی کی طرح کوندا۔ قبل اس کے کہ ساہو کار کی نظر پڑتی، اس نے بظاہر غلطی سے کنکر زمین پر گرا دیا، جو کہ ظاہر ہے دوسرے کنکروں میں شامل ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا ناکامی واقعی کامیابی کا زینہ ہے؟

“اوہ، یہ میں نے کیا کر دیا۔” اس نے شرمندہ سے لہجے میں بولنے کی اداکاری کی، اور ساہو کار سے کہا “خیر، آپ تھیلی سے دوسرا کنکر نکالیے، اس کا رنگ یقیناً گرے ہوئے کنکر سے مختلف ہو گا۔” ساہو کار کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ آپ خود بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ تھیلی سے سیاہ کنکر ہی نکلا ہو گا۔ اس طرح تاجر کا قرض معاف ہو گیا اور اس کی بیٹی کی جان بھی چھوٹ گئی۔

اس کہانی کا نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے ہم ایک اور مثال کی طرف آتے ہیں۔ آپ ائر پورٹ پر لاونج میں بیٹھے ہیں۔ آپ اناونسمنٹ سنتے ہیں کہ پرواز روانگی کے لیے تیار ہے، مسافر جہاز پر تشریف لے جائیں۔ ہم سب اعلان سنتے ہی تیزی سے اٹھتے ہیں اور جہاز کی طرف جانے والے مسافروں کی لائن میں لگ جاتے ہیں۔ دو تین سو مسافر ہوں تو جہاز تک پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اگر زیادہ مسافر ہیں تو وقت بھی اتنا ہی زیادہ لگے گا۔ لیکن پھر بھی ہم لا شعوری طور پر لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر قطار بنانا یقیناً فائدہ مند ہو گا۔ آپ دوسرے مسافروں کے ساتھ ہوتے ہیں، جو دوسرے کرتے ہیں وہی آپ بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ کو فضائی سفر کا زیادہ تجربہ نہ ہو آپ خود کو دوسرے لوگوں کے اندر محفوظ سمجھتے ہیں۔ آپ کو زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ بس جس طرف دوسرے جا رہے ہیں، آپ بھی ادھر کو چل دیتے ہیں۔ ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال ہوتا ہے کہ کہیں جہاز چھوٹ نہ جائے یا ہم کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں، اس لیے بھی ہم دوسروں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کیا ہر بار ایسا کرنا ضروری ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم آرام سے بیٹھ کر کسی کتاب یا رسالے کا مطالعہ کرتے رہیں، اور جب مسافروں کا رش کم ہوتا نظر آئے، تب اٹھ کر لائن کی طرف بڑھیں۔ چلیے، اس مثال کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھتے ہیں۔ آپ نے برطانوی مصنف جے کے رولنگ کی مشہور ناول سیریز ہیری پوٹر کے بارے میں سنا ہو گا۔ سیریز کا پہلا ناول 1997 میں اور ساتواں اور آخری ناول 2007 میں شائع ہوا۔ گزشتہ سال تک اس سیریز کی مجموعی طور پر پچاس کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ تقریباً اسی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ بارہ پبلشرز نے ہیری پوٹر سلسلے کا پہلا ناول چھاپنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب ناول کا مسودہ پہلے پبلشر کے پاس گیا تو اسے ناول میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا۔ اس کا خیال تھا یہ ناول فروخت نہیں ہو گا۔ دوسرے پبلشر نے پہلے کی دیکھا دیکھی ناول شائع کرنے سے معذرت کر لی۔ اس طرح بارہ پبلشر انکار کرتے رہے۔ تیرھویں پبلشر نے رسک لے لیا۔ یوں ہیری پوٹر کی دھوم مچ گئی اور پبلشر کی بھی چاندی ہو گئی۔

پہلے بارہ پبلشر وہی کرتے رہے جو دوسروں نے کیا۔ تیرھواں پبلشر اگر پہلے بارہ کی طرح سوچتا تو آپ خود اندازہ کر لیجیے، کتنے بڑے منافع سے محروم رہ جاتا۔ میرا خیال ہے اب بات کچھ واضح ہونے لگی ہے۔ ہمارے ذہن میں عموماً مسائل کے وہ حل آتے ہیں جو دوسروں نے سوچے ہوتے ہیں یا جو عام طور پر ہمیں اپنے آس پاس دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی درست ہوتے ہیں، لیکن یہ ہماری زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ بس ہم ایک روٹین میں چلتے رہتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے، ہم مسائل کے آسانی سے دستیاب حل جمع کر کے انہیں صندوق میں بند کر دیتے ہیں۔ وقت آنے پر صندوق کا ڈھکن کھولتے ہیں، اگر حل مل جائے تو ٹھیک، ورنہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور مسئلے کو لا ینحل قرار دے دیتے ہیں۔

کچھ لوگ ہمت نہیں ہارتے، وہ صندوق سے باہر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں بہت سے حل کسی وجہ سے صندوق میں نہیں سما سکے۔ تلاش کرنے پر انہیں آس پاس کوئی نہ کوئی حل مل ہی جاتا ہے۔ اس سوچ کو آؤٹ آف دا باکس تھنکنگ کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے چھوٹے صندوق کا سائز بڑا کر لینا چاہیے تاکہ اس میں زیادہ حل سما سکیں۔ کچھ سمجھتے ہیں صندوق سے باہر بھی نظر دوڑائیں، بہت سے حل قریب ہی مل جائیں گے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک صندوق کی ضرورت ہی کیا ہے، کیوں کہ سوچ کی رسائی وہاں تک ہے جہاں تک آسمان کی بے کراں وسعتیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

3 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email