Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

سید علی شاہ گیلانی، ایک عہد ساز شخصیت

سید علی شاہ گیلانی، ایک عہد ساز شخصیت

آر سی رؤف

نوکِ قلم میں تابِ جُنبش گرچہ نہیں ہے، لیکن دل بضد ہےکہ اس عہد ساز شخصیت کو حیطہء تحریر میں لایا جائے۔بحیثیت حریت رہنما پی ٹی وی پر دیکھا کرتے تھےتو بس یہی موہوم سا تعارف ہونے کے باوجود جبکہ ان  سے  کوئی  خونی رشتہ نہیں تھا ،ایک عجیب اپنائیت کا احساس روح و بدن کو گھیر لیتا۔ آواز جب فضاوں میں گونجتی تو اس  میں بہ یک وقت غیروں کے لئے  گھن گرج اور کڑک اور اپنوں کے لئے بے پناہ شفقت وحِلم۔پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں  لپٹے اپنے سفر آخرت کی طرف رواں دواں یہ حریت پسند ، مرد مجاہد کوئی اور نہیں ،علی شاہ گیلانی ہیں۔

علی شا ہ گیلانی جیسے بہادر سپوت کہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔میسور کا ٹیپو سلطان ہو یا کشمیر کا علی شاہ گیلانی، زندہ تو شیروں کی طرح دشمن کو للکارنے کا حوصلہ رکھتے تھے ان کے مردہ وجود کی ان دیکھی قوت سے بھی دشمن اس قدر خائف ہے کہ حیرت میں ہے دنیا۔

اپنے اسی خوف کی بدولت ظلم کی نئی  تاریخ رقم کرتے ہوئے بھارت کے  ظلم کی انتہا تو دیکھئے، بھارتی فوج نے ان کی میت کو چھین کر راتوں رات ان کی وصیت کے برعکس کسی نامعلوم مقام پر  دفنا دیا، جبکہ وہ خود مزار شہداء قبرستان میں مدفون ہونے کے خواہاں تھے۔ستم بالائے ستم ان کے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کےعلاوہ کسی کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دے کر اپنا ظرف تو ظاہر کیا ہی ہے، اپنے خوف  کو بھی آشکار کیا ہے کیونکہ انڈین آرمی کو معلوم تھا کہ اپنے رہنما کے جنازے کو کاندھا دینے والے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تو آزادی کے متوالے بے قابو ہو کر آندھی اور طوفان بن جائیں گے۔لوگوں کا سیلاب امڈ آیا تو ان کے لئے اسے روکنا نا ممکن ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟

پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے اس عمر رسیدہ، نحیف اور منحنی شخص کے وجود سے خوفزدہ بھارتی فوج نے انھیں ان کے گھر میں نظر بند کر کے رکھا ہوا تھا۔وہ بہ بانگ دہل کہا کرتے تھے۔”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے”۔جس سے یہ عیاں ہے کہ وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے کس قدر  حامی تھے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کشمیری امنگوں کا خیال رکھے بغیر وہ کبھی پاکستان کے ساتھ سودے بازی کے لئے تیار ہوئے ہوں۔

نوجوانوں میں اپنی شعلہ بیانی اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی وجہ سے مشہور”  نہ جھکنے والا گیلانی،نہ رکنے والا گیلا نی” 29 ستمبر 1929 کو سوپور میں پیدا ہوا۔سوپور میں ہی ابتدا ئی تعلیم حاصل کی۔اورنٹیل کالج میں داخلے کے دوران مولانا مودودی اور علامہ اقبلال کے خیالات سے متاثر نظر آئے۔علامہ اقبال کی فارسی کتب کے ترجمے کے علاوہ کئی کتابوں کا مصنف ،اسلامی نظریے کا قائل یہ رہنما آزادی کو سیاسی مسئلے کی بجائے مذہبی مسئلہ قرار دیا کرتا تھا۔جدوجہد آزادئ کشمیر کے طویل دور سے گزرنے کے بعد بالآخر اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر یہ مردمجاہد ستمبر ہی کے مہینے میں  اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔خدائے عزوجل مغفرت فرمائے۔ مظفر آباد آزاد کشمیر میں ان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے  سید علی شاہ گیلانی کی وفات کے موقع پرپارلیمنٹ کی عمارت سمیت سرکاری عمارات پر قومی پرچم سر نگوں رہا۔

One Response

  1. عمدہ آرٹیکل۔سید علی شاہ گیلانی جدوجہد آزادی کا استعارہ تھے۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email