Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

سکول اور کردار سازی

سکول اور کردار سازی

جمیل احمد

پہلے ایک سکول کے وزٹ کا آنکھوں دیکھا حال، جو محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ایک بزرگ نے مجھے سنایا۔ “کم و بیش پانچ دہائیاں پہلے کی بات ہے، ہم لاہور کے ایک سکول کا دورہ کرنے گئے۔ یہ سکول ایک غیر سرکاری رفاہی تنظیم کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ سکول میں پہنچے تو دیکھا اساتذہ لان میں بیٹھے ہیں۔ سلام دعا کے بعد باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ بچوں کے امتحانات جاری ہیں۔ ہم نے حیرت سے سوال کیا، اساتذہ باہر کیوں بیٹھے ہیں، بچوں کی نگرانی کیوں نہیں کر رہے؟ کیا بچے نقل نہیں کر رہے ہوں گے؟ اساتذہ نے انتہائی اعتماد سے جواب دیا، نہیں بالکل نہیں۔ آپ چاہیں تو کلاسز میں جا کر خود مشاہدہ کر لیں۔

ہم استعجاب کے عالم میں کلاسز کی طرف چلے گئے۔ ہماری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ کلاسز میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ ہر بچہ انتہائی سکون سے اپنا اپنا پرچہ حل کر رہا تھا۔ کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ ہم نے اساتذہ سے اس “معجزے” کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس سکول میں صرف کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں، بلکہ انسان تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم بچوں کی کردار سازی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس کی ہلکی سی جھلک آپ نے ابھی دیکھ لی ہے۔ یہی نہیں، وہ دیکھیے سامنے سکول کی ٹک شاپ ہے۔ آپ کو وہاں کوئی دکان دار نظر نہیں آ رہا نا۔ بچے اپنی پسند کی چیز اٹھاتے ہیں اور اس کی قیمت کاؤنٹر پر رکھے باکس میں ڈال دیتے ہیں۔ سکول کا وقت ختم ہونے پر شاپ کا حساب کتاب کر لیا جاتا ہے۔ مجال ہے جو فروخت شدہ اشیاء کی قیمت اور باکس میں رکھی ہوئی رقم میں کوئی فرق آئے۔”

محترم قارئین! میں یہ قصہ اب تک بہت سے دوستوں کو سنا چکا ہوں، اور ہر بار میں ایک خاص احساس کے زیر اثر آ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں، جب اس سکول کے تربیت یافتہ بچوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا ہو گا تو ان کے کردار کی خوشبو کہاں کہاں تک پہنچی ہو گی۔ کتنے گھرانے اور ان سے تعلق رکھنے والے کتنے لوگ ان اساتذہ کی تربیت کے طفیل سیرت و کردار کی روشن مثالیں بن گئے ہوں گے۔ کسی شاعر نے سچ کہا:

        جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

        ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ والدین، مربی اور استاد ہی تھے جن کے فیضان نظر سے مثالی سیرت و کردار کے چراغ روشن ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وطن عزیز میں کردار سازی اب بھی ہماری تعلیمی ترجیحات میں شامل ہے؟ اس دور میں جبکہ ہم اخلاقی زبوں حالی کی شکایت کرتے ہیں، میں چند اداروں اور تنظیموں سے ذاتی طور پر واقف ہوں جن کے پیشِ نظر مروجہ امتحانی نظام کے ساتھ چلتے ہوئے بچوں کی کردار سازی اولین ترجیح ہے۔ ایسے افراد اور تنظیمیں ہماری سوسائٹی کے لیے غنیمت ہیں جو شاید ہماری انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں کا کفارہ ادا کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں اگرچہ اپنے دائرہ کار میں بے حد قابل قدر کام کر رہی ہیں، تاہم کردار سازی کو ملک گیر سطح پر ترجیح بنانے کے لیے تمام سرکاری اور نجی سکولوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ 

یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں

بہت سے احباب یہ سوال کرتے ہیں کہ کردار سازی کے حوالے سے سکولوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کردار سے ہماری مراد کیا ہے۔ ہو سکتا ہے مختلف معاشروں میں کردار کی تعریف بھی مختلف انداز سے کی جاتی ہو، لیکن کچھ اجزاء ایسے ہیں جنہیں ہر معاشرے میں یکساں طور پر قبولیت حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن بچوں میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہوں، انہیں کردار کے حوالے سے دوسروں پر سبقت حاصل ہو گی۔ مثلاً احترام ایک ایسی صفت ہے جس کو ہر معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کا بچہ اختلاف رائے کو برداشت کر سکتا ہے، بد گوئی سے بچتا ہے، دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے والا ہے، غصے پر قابو پا سکتا ہے، حفظ مراتب کو پیش نظر رکھتا ہے، عمومی آداب کا پابند ہے، اس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کی عزت و آبرو کو خطرہ نہیں، اور وہ نا خوشگوار صورت حال کو بھی خوش اسلوبی سے ہینڈل کر سکتا ہے تو گویا اس نے حسن کردار کا پہلا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

اسی طرح بچے کا ذمہ دارانہ رویہ اس کے کردار کی ایک اور علامت ہے۔ اگر بچہ اپنا کام ذمہ داری سے مکمل کرتا ہے، کام کی پہلے سے منصوبہ بندی کرتا ہے، محنتی اور مستقل مزاج ہے، اپنی ذمہ داری سر انجام دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، اسے اپنے آپ پر اور اپنے جذبات پر قابو حاصل ہے، کسی کے بتائے بغیر نظم و ضبط کا خیال رکھتا ہے، پہلے تولو پھر بولو کے اصول پر کاربند ہے، اپنے قول و فعل کے بارے میں خود کو جواب دہ سمجھتا ہے اور دوسروں کے لیے بہترین مثال قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس نے اعلیٰ کردار کی دوسری منزل بھی طے کر لی ہے۔

عدل و انصاف سے کام لینا بھی اچھے کردار والوں کی پہچان ہے۔ اگر بچہ کلاس کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرتا ہے، دوسروں کی بات کو سننے کی کوشش کرتا ہے، کسی موقعے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا، دوسروں پر بلا وجہ الزام تراشی نہیں کرتا اور اپنے ہمجولیوں سے برابری کی بنیاد پر پیش آتا ہے تو وہ کردار کے سفر میں ایک قدم اور آگے بڑھ گیا ہے۔ بہت اہم بات اس کا قابل بھروسہ ہونا بھی ہے۔ دیانتداری سے کام لینا، چوری اور دھوکہ دہی سے احتراز، قول و فعل میں یکسانیت، حق بات کا ساتھ دینا، وفاداری، دوستوں، والدین اور اساتذہ میں اچھی ساکھ پیدا کرنا، اچھی صحبت اور حب الوطنی، یہ سب صفات بچے کو قابل بھروسہ شخصیت بنانے میں مدد دیتی ہیں۔

اگر ہم مثالی سیرت و کردار کی خصوصیات گنوانے لگیں تو فہرست خاصی طویل ہو سکتی ہے، تاہم اس میں رحم دلی، عفو و درگزر، شکر گزاری، لوگوں کی مدد کا جذبہ، اچھا شہری اور اچھا پڑوسی بننا، فلاحی کاموں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینا اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنا بھی شامل کر لیں تو بات بڑی حد تک مکمل ہو جاتی ہے۔ بلا شبہ کردار کی تکمیل اگر دیکھنی ہے تو ہمارے لیے سیرت النبی صلی اللّہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بہترین مثال کوئی نہیں۔ اللّہ نے امام الانبیاء خاتم النبیین و المرسلین حضرت محمد مصطفٰی صل اللّہ علیہ وسلم کو خلق عظیم کے منصب جلیل سے نوازا، جس کی شہادت قرآن نے بھی ان الفاظ میں دی ہے ’’إنک لعلی خلق عظیم‘‘ کہ خلق عظیم کا اعلیٰ اور ارفع مقام ہمارے پیارے نبی صل اللّہ علیہ وسلم کو ملا۔ اگر ہم نے دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو تعمیر سیرت کو ترجیح اول بنانا ہو گا۔

ہمارے سکولوں میں کردار سازی کو محور مان کر عملی سرگرمیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں، انہیں نصابی کتابوں اور تربیت اساتذہ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ سول سوسائٹی بشمول والدین مل بیٹھ کر سوچیں کہ نمبروں کی دوڑ اگرچہ آج کے تعلیمی نظام کی مجبوری ہے، لیکن بچے جو ہمارا حقیقی مستقبل ہیں، اگر کردار کی خوشبو سے خالی رہ گئے تو ہمارا سارا اسٹرکچر ریت کی دیوار ثابت ہو گا۔ لیکن نہیں، میں مایوس نہیں ہوں۔ ہم ٹیلنٹڈ قوم ہیں۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسی خوبیوں کے مالک ہیں جو دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں ملتیں۔ ہم ایک مرتبہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کر لیں تو اللّہ کے فضل سے کامیابیوں کی بہترین مثال قائم کر دیتے ہیں۔ ہمارے اندر کی روشنی دنیا کو منور کر سکتی ہے۔ بس یہ طے کرنے کی دیر ہے کہ پائیدار کامیابی کی منزل حسن کردار کی شاہراہ سے گزر کر ملتی ہے۔

5 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email