جمیل احمد
یہ 1987 کے اوائل کی بات ہے۔راولاکوٹ کے تعلیمی اداروں میں سرمائی تعطیلات ہو چکی تھیں۔ عبدالمتین بھائی اور میں نے مل کر اپنے گاؤں میں سٹوڈنٹس کے لیے کوچنگ سنٹر شروع کرنے کا پروگرام بنایا۔میں یونیورسٹی سے گریجویشن کر چکا تھا اور عبدالمتین بھائی کا ابھی ایک سال باقی تھا۔ہم دونوں ایک خاندان سے تعلق رکھنے کے علاوہ لنگوٹیے یار بھی تھے۔ اس دوستی کا تذکرہ پھر سہی! ہم کوچنگ سنٹر کی بات کر رہے تھے۔ ہم نے “عظیم چچا” سے جگہ کی درخواست کی جو انھوں نے کمال مہربانی سے قبول کر لی۔سو ہم نے لب سڑک ان کے نو تعمیر شدہ مکان میں کلاسز کا آغاز کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے سنٹر طالب علموں سے بھر گیا۔اگرچہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے تجربات ہم پہلے بھی کر چکے تھے، لیکن اس کوچنگ سنٹر کی کامیابی نے ہم “لڑکوں” کی ہمت مزید بندھائی۔
سرمائی تعطیلات کے اختتام پر جب کلاسز ختم ہونے کا وقت آیا تو عظیم چچا نے تجویز داغ دی، کہ ہمیں اپنے گاؤں میں سکول کھولنا چاہیے۔آس پاس نظر دوڑائی تو گاؤں میں سرکاری سکول کے علاوہ ایک دو پرائیویٹ سکول ہی تھے، جن میں سے ایک تقریباً بند ہو چکا تھا اور جو قائم تھا وہ قدرے فاصلے پر تھا۔ یعنی سکول کھولنے کی گنجائش موجود تھی۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر عظیم صاحب کی مشاورت سے اسی مکان میں سکول کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں “پرل اسلامک چلڈرن اکیڈمی” کے نام سے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ دی گئی۔مکان کے دو کمروں میں ہم کلاسز چلاتے اور ڈرائنگ روم کا معاملہ یہ تھا کہ گھر والوں کے لیے وہ مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور ہمارے لیے سکول کا آفس۔عظیم صاحب کی اہلیہ محترمہ خاص شفقت فرماتیں۔انھوں نے ہر طرح سے ہمیں سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی۔حتیٰ کہ ہمارے انکار کے باوجود اکثر و بیشتر اپنے ہاتھ سے کھانا اور چائے وغیرہ تیار کر کے ہمارے لیے بھیج دیتیں۔اس پر مستزاد یہ کہ پہلے سال انھوں نے ہم سے عمارت کا کرایہ بھی نہ لیا۔یہ انتظام ایک سال چلا، اور اس کے بعد سکول مکان کے دوسرے حصے میں کرائے کی عمارت میں منتقل ہو گیا۔
عمارتیں بدلتی رہیں، لیکن آج بھی یہ سکول “پرل اسلامک سکول اینڈ کالج” کے نام سےایک کامیاب ادارے کے طور پر علاقے میں علم کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ہزاروں دوسرے بچوں کے ساتھ نجانے کتنے ہی یتیم اور نادار بچے اس ادارے سے فیض یاب ہوئے ہوں گے۔گویا اس صدقۂ جاریہ میں عظیم صاحب کا خاص حصہ ہے۔جب تک یہ ادارہ قائم رہے گا عظیم صاحب کا نام اور ان کی یادیں اس سے وابستہ رہیں گی۔تو یہ تھے سردار محمد عظیم ضیاء ایڈووکیٹ، جنھیں ہم نے بچپن سے ایک شفیق، مہربان اور ہمدرد پڑوسی اور بزرگ کے طور پر دیکھا۔
کراچی سے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راولاکوٹ میں پریکٹس شروع کی۔ سیاست میں قدم رکھا۔ اگرچہ ہمارے سیاسی نظریات ایک نہ تھے، لیکن کسی مرحلے پر انھوں نے اس فرق کا احساس نہ ہونے دیا۔اگر بطور بزرگ ان کا تذکرہ کروں توان کے اور ہمارے والدین اور خاندان کے بڑوں کا تعلق ایسا تھا کہ ایک دوسرے کے گھروں میں کوئی فرق نہ تھا۔ہمارے والد محمد بشیر خان مرحوم، اور چچا محمد یونس مرحوم سے بہت لگاؤ تھا، ان کا بے حد احترام کرتے، لیکن ہمارے چھوٹے چچا محمد انور طالب مرحوم سے دوستی اور پیار کا جو تعلق بنا، اس کے بہت سے دلچسپ قصے زبان زد عام تھے۔اس تعلق کو وہ ہمیشہ نبھاتے رہے،اور ہمیں بھی اسی نظر سے دیکھا۔
زمانے کے نشیب و فراز انھوں نے بھی دیکھے۔ وہ آزادکشمیر کے چیف ایڈمنسٹریٹر زکوٰۃ و عشر،ایڈووکیٹ جنرل اور کسٹوڈین رہے۔ان سارے عہدوں کے باوجود ہم نے انھیں خوش اخلاقی اور انکساری کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے نہیں دیکھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی، نہایت خندہ پیشانی سے ملتے، بزرگوں سے اپنے تعلق کی کہانیاں سناتے، اپنی دوستیوں کے قصے بیان کرتے اور سیاسی و سماجی مسائل پر گفتگو کرتے۔ وہ ایک خاص طرح کی حس ظرافت کے مالک تھے۔ان کی محفل میں بیٹھ کر ہمیشہ ہم ایک خوش گوار تاثر لے کر اٹھے۔
ہم نے دیکھا کہ وہ دوسروں کی خاطر کچھ کرنے کے لیے بے چین رہتے تھے۔بہت سے لوگوں کو روزگار دلانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ان کی مدد کی۔عظیم صاحب نے اپنے گھر کے ساتھ ہی ایک قطعۂ زمین مسجد کے لیے وقف کر رکھا تھا، جہاں اب ایک خوب صورت مسجد قائم ہے اور پنج وقتہ نماز کے علاوہ جمعہ کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ بعض احباب سے معلوم ہوا کہ انھوں نے خاص تاکید کر رکھی تھی کہ منبر سے کبھی بھی ان کا نام نہ لیا جائے۔
عید الفطر سے ایک دن قبل معلوم ہوا کہ وہ اپنے بیٹے میجر عبدالحنان کے پاس چند دن گزارنے کوئٹہ گئے ہوئے تھے، جہاں اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ سی ایم ایچ کوئٹہ میں زیر علاج ہیں۔مرض کی شدت کے باعث انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کرنا پڑا، لیکن وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد 4 مئی 2022 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 5 مئی کو ان کا جسد خاکی راولاکوٹ لایا گیا۔لوگوں کا جم غفیر ان کے جنازے میں شرکت کے لیے امڈ آیا تھا۔اسی روز اپنے آبائی گاؤں چہڑ میں ان کی تدفین ہوئی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سردار محمد عظیم ضیاء نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا تو یہی کہوں گا کہ وہ بعد میں آنے والوں کے لیے درد مندی، شفقت، انکسار، تواضع، تدبر، تعمیری اور مثبت سوچ کے ان مٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو اپنے نور سے منور فرمائے، انھیں غریق رحمت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین!
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses