Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

جمیل احمد

صدیوں پرانی بات ہے، جب قدیم ایران (فارس) پر جمشید نام کا ایک عظیم بادشاہ حکمرانی کرتا تھا۔ وہ نہ صرف اپنی حکمت و دانش کے لیے مشہور تھا بلکہ اس کے پاس ایک ایسا جادوئی جام تھا جسے “ساغرِ جم” یا “جامِ جمشید” کہا جاتا تھا۔ اس جام میں جو بھی جھانکتا، اسے ماضی، حال اور مستقبل کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ دنیا کے تمام راز اس پیالے میں چھپے ہوئے تھے، اور اسی کی مدد سے جمشید اپنی سلطنت کے معاملات چلاتا تھا۔

ساغرِ جم کو ایرانی، عربی اور برصغیر کی شاعری میں اتنی اہمیت ملی کہ اسے علمِ غیب اور بصیرت کی علامت سمجھا جانے لگا۔

کہا جاتا ہے کہ ایک دن، جمشید اپنے تخت پر بیٹھا جام میں جھانک رہا تھا۔ اسے نظر آیا کہ اس کی سلطنت شان و شوکت کے باوجود کمزور پڑ رہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں حرص و ہوس بڑھ رہی تھی، اور طاقت کی یہ چمک انہیں اندھا کر رہی تھی۔ وہ حیران تھا کہ اس کے پاس علم و بصیرت کا خزانہ ہے، پھر بھی وہ اپنی رعایا کو سچا سکون نہ دے پایا۔

جمشید نے سوچا، “کیا واقعی یہ جام میری سب سے بڑی طاقت ہے؟ یا یہ محض ایک بوجھ ہے جو مجھے ہر لمحہ دنیا کے جھمیلوں میں الجھائے رکھتا ہے؟” وہ سوچتا رہا، یہاں تک کہ اس نے ایک فقیر کو دیکھا جو دربار کے باہر بیٹھا ایک مٹی کے پیالے میں پانی پی رہا تھا۔ اس فقیر کے چہرے پر عجب اطمینان تھا، جو جمشید نے اپنی پوری زندگی میں نہ دیکھا تھا۔

جمشید نے فقیر سے پوچھا، “اے درویش! تمہارے پاس نہ خزانہ ہے، نہ دنیا کی کوئی خبر، پھر بھی تم اتنے مطمئن کیسے ہو؟”

فقیر مسکرایا اور جواب دیا، “اے بادشاہ! میں جو کچھ جاننا چاہتا ہوں، وہ میرے دل میں موجود ہے۔ مجھے کسی جام میں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ میں قناعت اور شکرگزاری کے جام سے سیراب ہوں، جو ہر وقت میرے پاس ہے۔”

یہ الفاظ جمشید کے دل میں اتر گئے۔ وہ خاموش ہو گیا۔ وہ اپنے شاندار جام کی طرف دیکھتا رہا، پھر مٹی کے اس سادہ پیالے کو دیکھا جس میں فقیر پانی پی رہا تھا۔ اس لمحے اس پر حقیقت آشکار ہوئی کہ اصل بصیرت اور سچائی کسی ساغر میں نہیں، بلکہ دل کے سکون میں ہے۔

کہتے ہیں کہ اس کے بعد جمشید نے اپنا جام ایک ویرانے میں دفن کر دیا، اور اس کے بعد کسی نے ساغرِ جم کو نہیں دیکھا۔ مگر وہ درویشانہ سچ جو اس دن جمشید نے سیکھا، وہ آج بھی صوفیوں، داناؤں اور سادہ دل لوگوں کے درمیان زندہ ہے۔

یہ کہانی ہمیں زندگی کے ایک نئے رُخ سے آشنا کر رہی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں ہم اکثر اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ خود سے سوال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا: کیا واقعی ہمیں اتنی چیزوں کی ضرورت ہے؟ کیا یہ مادی اشیاء ہماری زندگی میں حقیقی خوشی کا ذریعہ ہیں؟ شاید نہیں۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ کم سے کم ضروریات کے ساتھ زندگی گزارنے میں ایک خاص طرح کی آزادی اور سکون ہے۔ اس طرزِ زندگی کو عموماً ‘Minimalism’ یا ‘سادگی’ کہا جاتا ہے۔

آج کے دور میں بھی ہم سب کے پاس اپنا ایک ‘ساغرِ جم’ ہے۔ سوشل میڈیا، مہنگی گاڑیاں، برانڈڈ لباس، جدید گیجٹس—ہمیں باور کروایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ حاصل کر لینے سے ہم خوش ہو جائیں گے ……….زیادہ چیزیں، زیادہ پیسہ، اور زیادہ سہولیات ہمیں سکون قلب کی منزل تک پہنچا دیں گی۔ مگر تحقیق بتاتی ہے کہ ایک خاص حد کے بعد دولت اور اشیاء میں اضافہ ہمیں مزید خوشی نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس، زیادہ مادی اشیاء رکھنے سے ذہنی بوجھ اور پریشانیاں بڑھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا زیادہ ہم حاصل کرتے ہیں، اتنی ہی مزید خواہشات پیدا ہوتی جاتی ہیں، اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن جاتا ہے۔

منملسٹ طرزِ زندگی دراصل ہماری حقیقی ضروریات اور غیر ضروری خواہشات میں فرق پہچاننے کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں میں جا بسیں یا اپنی زندگی کو کسی سخت آزمائش میں ڈال لیں، بلکہ اس کا مقصد ایک ایسا توازن قائم کرنا ہے جس میں ہم غیر ضروری اشیاء اور جھوٹی آسائشوں سے خود کو آزاد کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: حقیقی خوشی کہاں سے ملتی ہے

سادہ طرزِ زندگی میں کم چیزوں کے ساتھ زیادہ آزادی، کم الجھنوں کے ساتھ زیادہ سکون، اور کم خواہشات کے ساتھ زیادہ شکر گزاری شامل ہوتی ہے۔ ایک مختصر اور ضروری اشیاء پر مبنی طرزِ زندگی ہمیں فالتو اخراجات، بے جا دباؤ اور غیر ضروری پریشانیوں سے بچاتا ہے۔

سادگی کا یہ نظریہ ہمیں اندرونی سکون، شکر گزاری اور غنا کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہماری بیشتر خواہشات معاشرتی دباؤ اور اشتہارات کی پیدا کردہ ہیں۔ حقیقت میں ہمیں خوش رہنے کے لیے بہت کم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر آپ بھی اس سادگی بھرے طرزِ زندگی کو اپنانا چاہتے ہیں تو درج ذیل اصول آپ کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:

ضرورت اور خواہش میں فرق کریں: سب سے پہلے اپنی ضروریات اور خواہشات میں فرق کریں۔ کیا واقعی آپ کو ہر سال نیا موبائل خریدنے کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کے پاس پہلے سے موجود کپڑوں کے ہوتے ہوئے مزید نئے کپڑوں کی ضرورت ہے؟

کم خریدیں، اچھا خریدیں: بے شمار سستے اور غیر معیاری سامان خریدنے کے بجائے کم لیکن معیاری چیزیں خریدیں جو زیادہ عرصے تک کارآمد رہیں۔

اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں: اپنے گھر، دفتر، اور زندگی میں وہ چیزیں تلاش کریں جو غیر ضروری ہیں اور صرف جگہ گھیر رہی ہیں۔ جو چیزیں آپ کو مہینوں یا سالوں سے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، وہ شاید آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔

غیر ضروری اخراجات پر قابو پائیں: اپنے بجٹ کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں فضول خرچی ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خود پر ہر قسم کی خوشیاں حرام کر لی جائیں، بلکہ سمجھداری سے اخراجات کرنا ہی اصل حکمت ہے۔

سادہ مگر پُر لطف سرگرمیاں اپنائیں: مہنگے ریستورانوں میں کھانے کی بجائے گھر پر اپنے ہاتھوں سے پکانے کی عادت ڈالیں، تفریح کے لیے بڑے بڑے مالز میں گھومنے کی بجائے فطرت کے قریب وقت گزاریں، اور مہنگے گیجٹس پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کتابیں پڑھنے یا کسی نئے ہنر میں مہارت حاصل کرنے پر توجہ دیں۔

دیگر لوگوں کی مدد کریں: جب ہم اپنی ضروریات محدود کر لیتے ہیں، تو ہمارے پاس دوسروں کی مدد کرنے کے لیے زیادہ وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا اطمینان دنیا کی کسی بھی مادی چیز سے زیادہ سکون بخشتا ہے۔

سادگی اپنانے کے بعد زندگی میں جو تبدیلی آتی ہے، وہ حیرت انگیز ہوتی ہے۔ نہ صرف ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے بلکہ انسان کو حقیقی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ مادی اشیاء کی غلامی سے نجات مل جاتی ہے، اور انسان کم میں زیادہ خوش رہنا سیکھ لیتا ہے۔

یہ طرزِ زندگی ہمیں سیرچشمی، قناعت اور دل کے اطمینان کی دولت عطا کرتا ہے۔ ہر وقت نئی چیزوں کی خواہش میں مبتلا رہنے کی بجائے، ہم ان نعمتوں کی قدر کرنا سیکھتے ہیں جو پہلے سے ہمارے پاس موجود ہیں۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ سادگی میں جو لطف ہے، وہ مصنوعی اور دکھاوے کی زندگی میں نہیں مل سکتا۔ ایک پُرسکون اور کم ضروریات والی زندگی نہ صرف ہمارے ذہنی اور جذباتی سکون کے لیے مفید ہے بلکہ یہ قدرت کے قریب لے جاتی ہے، جہاں سادگی ہی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔

اسی حقیقت کو مرزا غالب نے یوں بیان کیا تھا:

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

یعنی شاہانہ شان و شوکت کی بجائے ایک سادہ مٹی کے پیالے میں زیادہ سکون اور اطمینان ہے۔ جمشید بادشاہ کی طرح ہم بھی اپنی خواہشات کے جام میں جھانک کر مستقبل کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں، مگر اصل خوشی مادی چیزوں میں نہیں بلکہ قناعت اور دل کے سکون میں ہے۔

تو کیوں نہ آج ہی سے اپنی زندگی کو غیر ضروری بوجھ سے آزاد کریں اور ایک ایسی زندگی اپنائیں جو حقیقی خوشی اور اطمینان سے بھرپور ہو؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email