Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں

زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں

جمیل احمد

وہ خود کشی کے ارادے سے باہر نکلا۔ اس کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔ اس کے سارے دوست ایک ایک کر کے اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ کچھ کو اس نے باقاعدہ دشمن ڈیکلیئر کر دیا۔ بھائی بہنوں اور قریبی رشتے داروں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے ساتھ اس کا تنازعہ نہ ہو۔ وہ گھنٹوں تنہا بیٹھا “دشمنوں” سے انتقام لینے کے نت نئے طریقے سوچتا رہتا۔ اپنے ساتھ ہونے والی “زیادتیوں” کا بدلہ لینا اس کی پہلی ترجیح بن گئی۔ تنہائی اسے کھانے لگی۔ نیند کا اس کی آنکھوں سے رشتہ کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ اس کا کھانا پینا کم ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس کی قوت ارادی جواب دینے لگی۔ اس نے سوچا، میں کسی سے انتقام تو نہ لے سکا، الٹا لوگوں نے مجھ سے کنارہ کشی کر لی۔ لہٰذا ایسی زندگی کا کیا فائدہ۔ اس کے ارد گرد ایسا کوئی نہیں بچا تھا جس سے وہ بات کر سکتا۔

اسی عالم میں وہ اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے کوئی مناسب مقام ڈھونڈنے لگا۔ اسے خیال آیا کیوں نہ جاتے جاتے گلی کی نکڑ والے بابے کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتا چلوں۔ میری جان تو جانی ہی ہے، دوسروں کے سر اپنے گناہ کا الزام دھرتا ہوا جاؤں۔ اس نے بابے سے اپنا ارادہ شئیر کیا۔ ساتھ ہی دوستوں اور رشتہ داروں کی غلطیوں اور “توہین آمیز” رویے کی طویل فہرست بھی گنوا دی۔ بابے نے کہا “میاں! مجھے تمہاری داستان سن کر بہت دکھ ہوا۔ تم شوق سے خود کشی کرو۔ ہاں، میری مانو تو بس ایک ہفتے کے بعد خود کشی کر لینا۔” اس نے بابے سے کہا “میری زندگی عذاب بن چکی ہے اور آپ مجھے زندہ رہنے کا کہہ رہے ہیں۔”

یہ بھی پڑھیں: کیا ناکامی واقعی کامیابی کا زینہ ہے؟

بابے نے اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا “اگر تم میری بات مان لو تو میں تمہارا احسان مند رہوں گا۔ بس تم نے کرنا یہ ہے کہ جن لوگوں سے تمہاری عداوت ہے، خود کشی کرنے سے پہلے ان سے ایک بار مل کر کہنا کہ میری زندگی کے دن بہت کم رہ گئے ہیں۔ میں اپنے آپ پر کوئی بوجھ لے کر جانا نہیں چاہتا۔ میں نے تمہیں معاف کیا۔ ہو سکے تو تم بھی مجھے معاف کر دینا۔” تھوڑی سی بحث کے بعد وہ مان گیا۔

ایک ہفتے کے بعد اس نے بابے کو رپورٹ پیش کی۔ “بابا جی! میں آپ کا احسان مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔ میں نے خود کشی کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ جس شخص سے بھی میں نے آپ کی بتائی ہوئی بات کی وہ ہکا بکا رہ گیا۔ بحث و تمحیص تو درکنار، اس نے دوسری بات نہ کی اور بہت سے تو یوں میرے گلے لگ کر روئے جیسے میں ہی ان کا سب سے قریبی عزیز ہوں۔ کتنے ہی لوگ تھے جنہوں نے مجھے نہ صرف گھنٹوں اپنے پاس بٹھائے رکھا بلکہ انتہائی محبت سے خاطر تواضع بھی کی۔ بابا جی! مجھے لگتا ہے یہ دنیا بہت ہی خوبصورت لوگوں کی دنیا ہے۔”

کہنے کو یہ چھوٹی سی حکایت ہے، لیکن ہمیں خوب صورت زندگی گزارنے کے لیے بہترین پیغام دیتی ہے۔ سوچیے، اگر ہم اپنے دلوں سے بغض، کینہ اور حسد نکال دیں تو ہمارے آدھے سے زیادہ غم دھوئیں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔ ہم ساری تگ و دو کس چیز کے لیے کر رہے ہوتے ہیں؟ سکون، اطمینان اور خوشی حاصل کرنے کے لیے؟

تو سنیے! وہ شخص خوش قسمت ترین انسان ہے جس کا دل شیشے کی طرح صاف ہے۔ جو رات کو بستر پر جائے تو اپنے دل کو کینہ اور حسد جیسی آلائشوں سے پاک کر کے سکون اور اطمینان کی نیند سو جائے، اور صبح اٹھے تو تر و تازہ دماغ کے ساتھ اللّہ کا شکر بجا لائے کہ اللّہ نے اسے ایک اور قیمتی دن کی دولت عطا کی ہے۔ پھر اس کی ساری توانائیاں رزق حلال کمانے اور بھلائی کے کاموں میں لگ جائیں۔

ایک عالم نے کیا خوب فرمایا کہ ایسی قوم میں محبت عام نہیں ہو سکتی جو کینہ سے بھر پور ہو، جو دشمنی مول لے، اور انتقام کیلئے موقع کی تلاش میں رہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ عذاب میں مبتلا اور پریشانیوں میں اوندھے منہ پڑے رہتے ہیں۔ کینہ اور حسد کی آگ دل میں اٹھائے پھرنے والے کسی بلند مقام کو نہیں پا سکتے، شان و شوکت نہیں بنا سکتے، اچھا نام پیدا نہیں کر سکتے، اور کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے۔

رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ کونسا شخص افضل ہے تو آپ نے فرمایا، ہر صاف دل والا ،سچی زبان والا۔ صحابہ نے کہا، سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں یہ صاف دل والا کون ہے؟ آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا، متقی پرہیزگار صاف شفاف جس میں نہ کوئی گناہ ہے نہ سر کشی نہ کینہ اور نہ حسد۔ تو محترم قارئین! زندگی کو جنت بنانا ہے تو دل کے گھر کو کینہ و عداوت کی آگ کی بجائے الفت و محبت کی دولت سے آباد کریں کہ یہی جینے کا سلیقہ ہے!

3 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *