Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

روسٹرم کا فاتح

روسٹرم کا فاتح

جاوید اقبال راجا

اللہ بخشے ہمارے بھائی راجا محمد ظہیر (ایم این اے گوجرخان ) کو،  کاک پل کو “کُکڑ پل” کہا کرتے تھے۔ دریائے سواں پر یہ پل ہے اور اس  سے متصل جاپان  روڈ ہے جو کہوٹہ تک چلی جاتی ہے۔اس روڈ پر واقع پہلے گاؤں کا نام گاگڑی ہے۔گاگڑی کیوں ہے؟ اللہ ہی جانے ۔مولوی برکت مرحوم (میرےہمک سکول کے کولیگ) زندہ ہوتے تو کھینچ تان کے کوئی وجہ تسمیہ “کَڈھ مارتے”۔کیونکہ وہ اسی گاؤں کے باسی اور علمی ،ادبی شخصیت تھے۔سروس کے آخری سالوں میں ،میں اس گاؤں کے ہائی سکول میں خدمات انجام دے رہا تھا۔

سردیوں کے دن تھے، صبح نو بجے کا وقت تھا۔”چٹکے دار” دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ابھی ابھی مارننگ اسمبلی ختم ہوئی تھی۔بچے اپنی اپنی کلاسز میں جا رہے تھے۔مجھے اس ادارے میں آئے  چند  ہی دن  ہوئے تھے۔مجھ سے پہلے حافظ داؤد انجم مرحوم  اس ادارے کے سربراہ تھے۔جنھوں نے سکول کو مثالی ادارہ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔۔میرے لیے ادارے کے معیار کو قائم رکھنا بھی ایک چیلنج تھا۔

حافظ داؤد مرحوم نہ صرف  مردم شناس  تھے بلکہ  مدرس آشنا بھی تھے۔انھوں نے چن چن کر  محنتی اور باصلاحیت  اساتذہ کا ایک حسین گلدستہ اپنے ہاں جمع کیا ہوا تھا۔جن کے ہوتے ہوئےمجھے تدریسی معیار کی کوئی فکر نہیں تھی۔مجھے فکر تھی تو صرف اپنے ذوق یعنی  “ہم نصابی سرگرمیوں” کی ۔ میری دانست میں سکول کے  اس شعبے   کا کام ذرا “ماٹھا ” تھا۔

چونکہ میں اپنے آپ کو بزعم خود اسی ماٹھے کام کا “ایکسپرٹ” سمجھتا ہوں اور چونکہ  مجھے یہی ” ماٹھا” کام  ہی آتا ہے اور چونکہ  میں ساری زندگی اسی کام ہی  میں لگا رہا ہوں اور چونکہ یہی کام ہی میری پہچان ہے، اس لیےمیری سوچوں کا محور و مرکز  بزم ادب، سکول کا ادبی مجلّہ ،  تقریری و تحریری مقابلہ جات، گیمز ، ٹورز اور طلبہ کے ادبی و تخلیقی ہاؤسز  تھے۔سکول کی خوب صورٹ آؤٹ لک (outlook)،طلبہ کے صاف ستھرے یونیفارم تھے۔

اسمبلی کے بعد بچے لائن بنا کر اپنی اپنی کلاسز میں جا رہے تھے۔اساتذہ میں سے چوہدری عبدالمجیداور اصغر علی سیلرو  میرے پاس کھڑے تھے۔ میں ان سے  اسمبلی اور تقریبات  کے لیے سطح زمین سے اونچا سٹیج اور روسٹرم کی باتیں کر رہا تھا۔جس جگہ ہم سٹیج بنانا چاہتے تھے وہاں ایک سرو کا درخت بھی تھا۔ہم درخت کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے۔میں نے کہاجب سٹیج بنائیں گے تو اس درخت کو یہاں سے  اکھڑوا دیں گے۔         آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ درخت نے میری بات کو دل پر لے لیا اور اتنا محسوس کیا کہ چند ہی دنوں  میں  سوکھ گیا جبکہ اس کے ساتھ کے باقی درخت اسی طرح  ہرے بھرے تھے۔

اس واقعہ کا میں نے کئی احباب سے  ذکر بھی کیا ۔ایک صاحب نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے  بتایا  کہ افریقہ کے گھنے جنگلوں کی آبادیوں  میں جب کوئی قبیلہ  کسی  درخت کو اکھاڑنے  کا ارادہ کرتاہے تو  اس کے افراد درخت کے  ارد گرد دائرہ بناکر کھڑے ہو جاتے ہیں ، درخت کو مخاطب کر کے  اس کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔اس پر تہمتیں لگاتے ہیں اور  طرح طرح کے الزامات دھرتے ہیں کہ تو یوں ہے،تو ووں ہے،تو ایسا ہے ، تو ویسا ہے وغیرہ وغیرہ، جنھیں سن کر درخت چند ہی دنوں میں سوکھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سکول میں قائد پیدا کرنے کا فن

مجھے یاد ہے,یہ 1975-76 کی بات ہے میں گورنمنٹ ہائی سکول جند اعوان (چکوال) میں بطور مدرس تعینات تھا۔مولوی یوسف  مرحوم بڑے پاکباز، پارسا اور  علمی شخصیت تھے۔جماعت اسلامی کے رکن تھےاور بہت نڈر انسان تھے۔اس وقت چکوال ضلع جہلم میں شامل تھا ۔میں ان دنوں تنظیم اساتذہ ضلع جہلم کا سیکریٹری نشرواشاعت تھااور کسی تنظیمی میٹنگ کے سلسلے میں  لاہور آ رہا تھا۔یوسف صاحب نے تین چار سوال لکھ کر دیےکہ ان کا جواب مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھنا۔باقی سوال یاد نہیں رہے البتہ مجھے  ایک سوال ابھی بھی یاد ہے ،میں نے مولانا مرحوم سے  پوچھا تھا کہ آپ نے لکھا ہے کہ قبر کے عذاب کی چیخیں قبر کے اوپر گھاس چرنے والے چوپائے  بھی سنتے ہیں۔اگر وہ سنتے ہیں تو کسی قسم کا ردعمل کیوں ظاہر نہیں کرتے۔مولانا مرجوم نے بڑا تفصیلی اور مدلل  جواب دیتے ہوئے یہ بھی  فرمایا تھا کہ جاپان میں زلزلے زیادہ آتے ہیں۔وہاں کے لوگ جانوروں،پرندوں کی غیر معمولی حرکات وسکنات  دیکھ کر قبل از وقت اندازہ لگا  لیتے ہیں کہ اس علاقے میں زلزلہ آنے والا ہے اور وہ اپنی حفاظت کا انتظام کر لیتے ہیں۔

الغرض اللہ نے  انسان تو انسان حیوانات و نباتات تک کو  گوناگوں صلاحیتوں اور احساسات و جذبات کی صفات سے متصف کیا ہے۔کامیاب معلم وہ ہےجو طلبہ کی  خوابیدہ صلاحیتوں کا ادراک کر کے  ان کی تشکیل سیرت  کر سکے۔سنجیدہ پلاننگ اور مؤثر حکمت عملی ہی مطلوبہ اہداف کے حصول میں معاون ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نمبر یا مہارتیں

ایک سنگ تراش سے پوچھا گیا کہ تم پتھر سے شیر کیسے گھڑ لیتے ہو؟اس نے بڑا خوب صورت جواب دیا۔بولا شیر اس پتھر کے اندر ہوتا ہے۔اس شیر پر پتھر کی فالتو تہیں چڑھی ہوتی ہیں،میں انھیں نرمی سے اتار دیتا ہوں،اندر سے شیر نکل آتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ معلم کی  سب سے بڑی ذمہ داری بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا۔قوت اظہار مہیا کرنا اور انھیں “روسٹرم کا فاتح” بنانا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email