محمد اسلم حجازی
جس طرح انسان کا ایک جسمانی اور ایک روحانی وجود ہے اسی طرح عبادات کا بھی ایک ظاہری اور ایک باطنی وجود ہے۔ عبادات میں سے ایک اہم عبادت روزہ ہے۔ روزے کا ایک ظاہری وجود ہے جس کا تعلق سحر و افطار کے انتظامات اور کھانے پینے یا شہوات سے اپنے آپ کو روکنے سے ہے۔ مگر روزے کی اصل روح اور مقصود تقویٰ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 183)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کیا ہے اور روزے سے یہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
تقویٰ کی تعریف
تقویٰ عربی زبان میں “وقایہ” سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بچاؤ۔ اصطلاحی طور پر تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر اس چیز سے بچے جو اللہ کی ناراضی اور عذاب کا سبب بن سکتی ہے اور ہر اس چیز کو اختیار کرے جو اللہ کی رضا اور قرب کا ذریعہ بنے۔
روزہ اور تقویٰ کا تعلق
روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا کے تابع کرنے اور ہر اس چیز سے بچنے کا نام ہے جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہو۔
نفس کی تربیت:
روزہ ہمیں صبر، استقامت اور اپنے نفس پر قابو پانے کی تربیت دیتا ہے۔ جب ایک شخص اللہ کے حکم پر کھانے، پینے اور دیگر خواہشات سے رُک جاتا ہے، تو وہ تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
ظاہری و باطنی پاکیزگی:
روزہ جسمانی عبادت کے ساتھ ساتھ روحانی اصلاح کا بھی ذریعہ ہے۔ اگر ایک شخص روزہ رکھ کر جھوٹ، غیبت، حسد، گالی گلوچ اور دیگر برے اعمال میں مبتلا رہے تو وہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کر رہا ہوتا ہے، جبکہ روزے کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ اور فحش کلامی سے نہ بچے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ (بخاری)
اللہ کی نگرانی کا احساس:
روزہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اللہ ہر وقت ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ایک شخص تنہائی میں بھی کھانے پینے سے رُکا رہتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہی کیفیت اگر عام زندگی میں بھی پیدا ہو جائے تو انسان گناہوں سے بچنے لگتا ہے، جو اصل تقویٰ ہے۔
رحم دلی اور ہمدردی:
روزہ رکھنے سے انسان بھوک اور پیاس کا احساس کرتا ہے، جس سے اس کے اندر دوسروں کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہمدردی اور ایثار بھی تقویٰ کا حصہ ہے۔
شیطان سے حفاظت:
حدیث میں آتا ہے: “روزہ ڈھال ہے۔” (بخاری، مسلم)
یعنی روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ جب انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے تو وہ شیطانی وسوسوں سے بھی محفوظ رہتا ہے، اور یہی تقویٰ ہے۔
روزے کے ذریعے تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے؟
روزے کے ظاہری آداب کے ساتھ اس کی روح کو بھی زندہ رکھا جائے۔
جھوٹ، غیبت، غصہ، حسد اور دیگر برائیوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
نماز، تلاوت قرآن، ذکر الٰہی اور دعاؤں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے۔
صبر اور شکر کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔
حلال کمائی، رزقِ حلال اور دیانت داری کو اختیار کیا جائے۔
غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جائے تاکہ ایثار اور ہمدردی پیدا ہو۔
اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا کیا جائے تاکہ گناہوں سے بچا جا سکے۔
حاصل کلام:
روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل تربیتی عمل ہے جو انسان کو اللہ کی محبت، خشیت، صبر، تقویٰ اور شکر کی دولت عطا کرتا ہے۔ روزے کی ظاہری شکل کے ساتھ ساتھ اس کی اصل روح یعنی تقویٰ کا حصول ہی وہ اصل ہے جو اگر حاصل ہو جائے تو رمضان سے پہلے کے مقابلے میں رمضان اور اس کے بعد کی زندگی میں نمایاں طور پر بہتری آجاتی ہے جو بندہ مومن کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
محمد اسلم حجازی
محمد اسلم حجازی گزشتہ پچیس سال سے ایجوکیشنل پلاننگ، مینیجمنٹ، اور تربیت کے میدان سے وابستہ ہیں۔ علم و ادب بطور خاص اقبالیات سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ریڈ (READ) فاؤنڈیشن میں گزشتہ 15 سال سے بطور جنرل مینیجر ایجوکیشن اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔