Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

روح کی سرشاری

روح کی سرشاری

جمیل احمد

روح کی سرشاری  ایک ایسا تصور ہے جو انسان کو صدیوں سے اپنی جانب کھینچتا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جہاں انسان اپنے اندرونی وجود سے گہری وابستگی محسوس کرتا ہے، اور اس کی روح اس بلندی تک پہنچ جاتی ہے جہاں وہ سکون، اطمینان اور خوشی کے بے پایاں  احساس سے ہم کنار ہو جاتی  ہے۔

روح کی سرشاری کی منزل تک پہنچنے  کے لیے انسانوں نے مختلف راستے اور طریقے اختیار کیے  ہیں۔ پھر  چونکہ ہر فرد منفرد ہوتا ہے، لہٰذا اس  کا روحانی تجربہ  بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ تاہم، کچھ عام اصول ایسے ہیں جنھیں اپنا کر ہم روح کی سرشاری کی جانب سفر شروع کر سکتے ہیں۔

روح کی سرشاری  ہمیں کیسے حاصل ہو سکتی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیےسب سے پہلے  ہم اپنے نفس کی حالتوں  پر غور کرتے ہیں۔ مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نفس کے تین درجات ہیں۔بعض لوگوں نے چار درجات بھی لکھے ہیں۔تو ہم یہاں وضاحت کے لیے چاروں درجات کا ذکر کر دیتے ہیں۔

پہلا ہے نفس امّارہ۔

یہ وہ نفس ہے جو انسان کو برائی پر اکساتا ہے، انسان کو اللہ کی نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور  فسق و فجور اور گناہوں  پر ابھارتا ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

ترجمہ: یقینا نفسِ امّارہ بہت زیادہ برائی کا حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحمت کرے۔ یقیناً میرا رب بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔(یوسف:53)

یہی وہ نفس ہے جس کا مقابلہ کر کے اسے دبانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا زور ٹوٹ جائے ۔

دوسری قسم ہے نفسِ لوّامہ۔

یہ وہ نفس ہے جو انسان کو بھلائی اور نیکی کم کرنے پر ملامت کرتا ہے اور گناہ اور برائی کے ارتکاب پر بھی ڈانٹا اور جھڑکتا ہے۔ انسان جب نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی اختیار کرتاہے اور اپنے خالق کے احکام کی تعمیل میں اورآخرت کے خوف میں نفس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو اس کا یہی نفس لوّامہ یعنی برے کاموں پر ملامت کرنے والا بن جاتاہے۔یہی حالت عام صالحین کے نفوس کی ہوتی ہے ۔ یہ وہی نفس ہے جسے ضمیر بھی کہا جا سکتا  ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے نفسِ لوّامہ کی قسم یوں اٹھائی ہے:

 وَ لَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ

ترجمہ: میں ملامت کرنے والے نفس کی قسم اٹھاتا ہوں۔ (القیامہ:2)

یہ اچھا نفس ہے اگر یہ غالب رہے تو انسان پر نیکی غالب رہتی ہے اور اگر نفسِ امّارہ غالب آجائے تو انسان پر بدی غالب ہو جاتی ہے۔

تیسری قسم ہے نفسِ خبیثہ۔

جب انسان ہر وقت خواہش پرست اور نفس پرست بن جائے، ہر وقت گناہوں اور نافرمانیوں میں ڈوبا رہے تو اس کا نفس، نفسِ خبیثہ بن جاتا ہے۔ پھر اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اسے نیکی اور بھلائی سے نفرت ہو جاتی ہے اور اسے گناہ، فسق و فجور اور شیطانی کاموں سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ  ہر وقت گناہوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا اور شیطانی کاموں میں آلودہ رہتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول اللہﷺ نے(موت کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے)  فرمایا: اور  آدمی اگر گناہ گارہوتو فرشتے کہتے ہیں کہ اے ناپاک نفس، جو ناپاک جسم میں رہا، قابل مذمت ہو کر جسم سے نکل۔ کھولتے ہوئے پانی اور کانٹے دار کھانے کی خوش خبری قبول کر اور اِسی طرح دوسرے ہر قسم کے عذاب کی بھی۔ اِس نفس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے، یہاں تک کہ روح نکل جاتی ہے۔پھر اِ س  کو آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ہے، اِس کے لیے (آسمان کا) دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ پوچھا جاتا ہے: کون؟ بتایا جاتا ہےکہ فلاں ہے۔پھر وہاں سے جواب آتا ہے کہ اِس ناپاک نفس کے لیے، جو ناپاک جسم میں رہا، کوئی خوش آمدید نہیں ہے۔اِسی حال میں قابل مذمت واپس چلے جاؤ، اِس لیے کہ تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ چنانچہ اُس کو آسمان سے واپس بھیج دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ قبر میں چلا جاتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَهٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ

ترجمہ: اللہ تعالی ناپاک کو پاک سے الگ کر دے گا اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملادے گا ،پس ان سب کو اکٹھا ڈھیر کر دے گا پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔ ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں۔ (الانفال:37)

تو غور کیجیے! نفسِ خبیثہ کا آخرت میں کتنا برا حال ہو گا کہ تمام گندے نفسوں کا ڈھیر بنایا جائے گا اور پھر اس ڈھیر کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل نہ فرمائے۔ آمین!

یہ بھی پڑھیں: زندگی کا مقصد کیسے تلاش کریں؟

اب آتے ہیں نفس کی چوتھی قسم کی جانب، جو نفس مطمئنّہ ہے، اور جس کا دوسرا نام نفسِ طیبہ ہے۔

جو انسان نفسِ امّارہ کو دبا لیتا ہے ،نفس لوّامہ کی آواز  پر کان دھرتا ہے،اور نفس کو نیکیوں اور بھلائیوں پر لگا لیتا ہے، تو نیکیاں اور  اچھائیاں کر کر کے اس کا نفس، نفسِ مطمئنّہ  بن جاتا ہے۔ پھر انسان کے لیے اعمال ِصالحہ، عبادات ،بھلائیاں اور اچھائیاں پسندیدہ  ہو جاتی ہیں؛ پھر نیکی کرنا بوجھ نہیں بنتا بلکہ نیکی سے محرومی بوجھ محسوس ہونے لگتا  ہے۔ پھر نماز کی پابندی بھاری نہیں لگتی بلکہ نماز کا چھوٹ  جانا  مصیبت اور صدمہ بن جاتا ہے۔ پھر دین کا کوئی بڑے سے بڑا کام مشکل نظر نہیں آتا بلکہ ہر ناممکن کام آسان ہو جاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: موت کے وقت آدمی کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ اگر وہ نیک ہو تو اُس سے کہتے ہیں: اے پاکیزہ نفس، جو پاکیزہ جسم میں رہا، قابلِ ستائش  حال میں باہر آجا، اور راحت و سرور کی اور اُس رب (سے ملاقات) کی خوش خبری قبول کر، جو تجھ سے ناراض نہیں ہے ۔پھر اُس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ باہر آجاتا ہے۔پھر اُس کو آسمان پر لے جایا جاتا ہے، اُس کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، پھر آواز آتی ہے، یہ کون ہے؟ جواب دیا جاتا ہے: فلاں۔ پھر(آسمان والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے: اِس پاکیزہ نفس کو، جو پاکیزہ جسم میں رہا، خوش آمدید ۔قابل تعریف ہو کر داخل ہوجاؤ اور راحت و سرور کی اور اُس رب سے ملاقات کی خوش خبری قبول کرو، جو تم سے ناراض نہیں ہے۔ یہی بات اُس سے ہر آسمان میں کہی جاتی ہے، یہاں تک کہ اُس کو  اُس آسمان پر لے جایا جاتا ہے، جہاں خود اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے۔(سنن ابن ماجہ)

تو یہ ہے دراصل وہ روح  جسے یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ اے نفسِ مطمئنہ (اللہ کی اطاعت پر مطمئن نفس) جا اپنے رب کی طرف، تو رب پر راضی، تیرا رب تجھ پہ راضی،  میرے بندوں میں شامل ہو جا ، اور میری جنتوں میں داخل ہو جا۔یہ ہے وہ شخص جس کی روح دنیا اور آخرت میں حقیقی خوشی، اطمینان اور سکون سے سرشار ہو گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روح کی سرشاری کی یہ منزل کیسے حاصل کریں۔

اس کا سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ  آدمی اپنی کوتاہیوں لغزشوں اور کمزوریوں کو معمولی  نہ سمجھے بلکہ فوراً اللہ کی طرف رجوع کر کے  اپنی غلطی پر نادم ہو۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن اپنے گناہ کو پہاڑ کی مانند سمجھتا ہے جبکہ کافر ا سے ناک پر بیٹھی مکھی خیال کرتا ہے ۔

پھر یہ کہ ہر موقع پر ہمیں جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ  ہمارے نفس میں کون سے جذبات پیدا ہو رہے ہیں ۔کہیں ہم  فریقِ مخالف سے اپنی ذات کی خاطر انتقام لینے کی خاطر نفس امّارہ سے مغلوب ہو جاتے ہیں، اور کبھی  خوشی کے موقع پر گمراہ کُن جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ کسی وقت  حق کا ساتھ دینے میں تامّل کا شکار  ہوتے ہیں ، تو کبھی تنہائی میں  ہمیں کئی  وسوسے اور شیطانی خیالات  لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنے آپ سے  سوالات کے ذریعے نفس امارہ کو شکست دے کر نفسِ لوّامہ کو سمجھا جاسکتا ہے اور اسے نفس مطمئنہ کے قریب کیا  جا سکتا ہے۔

مثلا ًحضرت علیؓ کا ایک شخص سے جھگڑا ہوا۔ جب آپ نے اسے پچھاڑ دیا تو اس نے غصے میں آکر آپؓ پرتھُوک دیا ۔آپ یہ کہہ کے جھگڑے سے دستبردار ہوگئے کہ پہلے حق کی خاطر لڑ رہا تھا اب اپنی ذات کی خاطر نہیں لڑوں گا۔ اسی طرح ایک بزرگ نے جب یہ سنا کہ فلاں شخص ان کی غیبت کیا کرتا تھا ،تو اس کے گھر کھجور کا ایک ٹوکرا بھجوا دیا اور کہہ دیا کہ سنا ہے کہ تم روزِ قیامت مجھے اپنی نیکیاں دو گے ،تو میں نے دنیا میں ہی اس کا بدلہ تمہیں دے دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دعا اور عبادت  سے مدد لینی چاہیے، جو ہمیں  اپنے خالق سے جوڑنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ عمل انسان کو روحانی سکون اور اطمینان فراہم کرتا ہے۔

دیکھا جائے تو فطرت سے قربت،خدمت خلق،علم کی تلاش،محبت اور شفقت،معاف کرنے کی صلاحیت،صبر و تحمل،اور اپنی ذات کی معرفت  بھی ایسے طریقے ہیں جن کو اختیار کر کے ہم روح کی سرشاری کی منزل پا سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ جب ہم اپنے خالق کی اور اپنی ذات کی پہچان کر لیتے ہیں،  ہمارا نفس نیکیوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے، برائیوں سے دُور ہٹنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، تو ہم اپنے رب کی جانب قدم بہ قدم بڑھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے ہماری روح حقیقی سکون اور اطمینان کی لذت سے سرشار ہوتی ہے۔تاہم اس  راستے پر چلنے کے لیے ہمیں مستقل کوشش کرنی ہو گی اور صبرسے کام لینا ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *