بہت کچھ بدل چکا
امجد محمود امجد
13 ستمبر 2004 کے دن روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد آ نا پڑا ۔ اس کے بعد بہت کم اپنے آبائی علاقہ راولاکوٹ جانا ہوا۔ امسال رمضان کے آخری ایا م اور عید الفطر کے دوران تقریباً بیس سال کے بعدراولاکوٹ میں 9 دن گزرارنے کا موقع میسر آیا ۔
اس دو رے کے دوران جہاں بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوئیں وہیں کچھ نئے تجربات اور مشاہدات بھی ہوئے۔ راولاکوٹ کے لوگ مکمل طور پر ’شہری بابو‘ بن چکے ہیں۔ کھیتی باڑی تو دور کی بات ’کچن گارڈننگ‘ کا بھی فقدان دیکھنے کو ملا۔ کچھ لوگ اب بھی زراعت کے کام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس حوالہ سے زیادہ حوصلہ افزا فضا نظر نہیں آئی۔ ایک دور تھا کہ گھر میں کھانے پینے کی ضروریات زیادہ تر اپنی زمینوں سے پوری کی جاتی تھی۔ راولاکوٹ میں زرعی یونیورسٹی کا قیام شاید زراعت کی ترویج اور ترغیب کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ اب تو یہ ترقی کرتے ہوئے باقاعدہ ایک مکمل یونیورسٹی کا روپ دھار چکی ہے۔ زراعت کے ساتھ ساتھ بےشمار شعبہ جات کی تعلیم و تدریس کا کام احسن انداز سے جاری ہے۔ یونیورسٹی ، محکمہ زراعت اور غیر سرکاری تنظیموں کو اپنے اس بھولے ہوئے سبق کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ تاکہ آمدنی کے ساتھ ساتھ دیسی پھل اور سبزیو ں کے استعمال سے عوام علاقہ کی صحت بھی اچھی ہو۔ راولاکوٹ میں میڈیکل سٹورز پر لگی لمبی لمبی قطاریں راولاکوٹ کے باسیوں کی صحت کا معیار بتا رہی ہیں۔
راولاکوٹ شہر کافی وسیع ہو چکا ہے۔ کئی نئی سڑکیں، تعلیمی ادارے اور ہاسٹلز بن چکے ہیں۔ عید کی خریداری کا اتفاق بھی ہوا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ راولاکوٹ کے مقامی افراد کی اکثریت کاروبار میں آ چکی ہے۔ اور بزنس کی مہارت بھی سیکھ چکے ہیں۔ایک وقت تھا کہ پٹھان اور افغانی بھائی کار وبار پر قابض تھے۔ بھر یہاں کے زعماء نے اپنے نوجوانوں کو کاروبار میں آنے کی ترغیب دی اور ماحول بھی سازگار بنایا، جیسا کہ آسان شرائط پر دکانوں اور سامان کی فراہمی وغیرہ تو آج راولاکوٹ کا اس حوالے سے نقشہ ہی بدلہ لگتاہے۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ خریداری کے لیے اکثر خواتین مردوں کے بغیر بازار میں آتی ہیں اور دکانداروں سے بے تکلف بھی ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قصہ بیتے دنوں کا
راولاکوٹ میں تعلیم کی شرح باقی علاقوں کی نسبت کافی زیادہ ہے اور اگر خواتین کی بات کریں تو یہ شرح اور بھی زیادہ نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے خواتین اب ہر شعبہ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ بینک ، وکالت ، پرائیویٹ دفاتر اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں عہدوں پر خواتین براجمان نظر آتی ہیں۔ اب تو ہر وکیل کے چمبر پر خواتین وکلا کا نام لکھا نظر آتا ہے۔ ایک بات بہت خوش آئند ہے کہ ہمارے اس علاقے کی خواتین کے سر سے دوپٹہ نہیں اترا،اگرچہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج میں باہر سے آنے والی طالبات کی وجہ سے ماحول میں کچھ تبدیلی کا خدشہ تھا لیکن مقامی تہذیب کی جڑیں مضبوط ہونے کی وجہ کچھ خاص فرق نہیں پڑ ا۔
ایک چیز جو فراوانی میں نظر آئی وہ ہر گھر کے سامنے کھڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکل تھے۔ کچھ عرصہ میں اکثر لوگوں نے ذاتی استعمال کے لیے گاڑیاں اور موٹر سائیکل خرید رکھے ہیں جو کہ یقینا خوشحالی اور ترقی کی علامت ہے۔ تاہم موٹر سائیکل کے حادثات کئی قیمتی نوجوانوں کی جانوں کی اموات کا باعث بن رہے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور نوجوانوں کو اس طرف تو جہ دینا ہو گی تا کہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
سرکاری میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کے قیام سے جہاں مقامی لوگوں خصوصاً طالبات کے لیے تعلیم و تعلم کے مواقع پیدا ہوئے وہیں نوکریوں اور کاروبار کے زبردست مواقع بھی سامنے آئے۔ اب مقامی پڑھے لکھے افراد ، مرد و خواتین کی کثیر تعداد ان اداروں میں نوکری اور ان سے ملحقہ کاروبار یعنی ہاسٹلز، بک سٹالز وغیرہ کے ساتھ منسلک نظر آرہے ہیں۔
کچھ نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی جن سے پو چھا کہ کیا اب بھی کالج میں نوجوان لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ ہمارے کالج دور میں خاص طور پر رمضان میں بہت لڑائیاں ہوتی تھیں ۔ نوجوانوں نے بتایا کہ اب لڑائیاں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر ہوتی ہیں۔ شکر ادا کیا کہ چھری چاقو سے تو جان چھوٹی۔ نوجوانوں نے یہ بھی بتایا کہ موبائل فون کے آنے سے نوجوانوں خاص طور پر کالج ، یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات میں وقت کا ضیاع اور غلط عادات و رجحانات پروان چڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کی طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔
راولاکوٹ میں اگر نہیں بدلا تو لوگوں کا مزاج اور یہاں کا موسم۔ ’ماسیروں‘ کا وہی روایتی انداز، خوبصورت انداز میں تراشے ہوئے بال اور چھوٹی چھوٹی داڑھی، استری کیے ہوئے اجلے لباس اور محبت ، و چاہت والا نرالہ انداز ۔ جہاں جس سے بھی ملاقات ہو تو خلوص سے بولیں گے’ماسیراچھا چاہ پی نا‘ چائے تو لازمی پلائیں گے۔ یاد رہے کہ راولاکوٹ میں چائے پینے اور پلانے کا بہت رواج ہے اور یہاں کئی ایسے ہوٹل ہیں جو صرف چائے بناتے اور پلاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی اور ڈش نہیں بناتے۔
یہاں کے لوگ مزاج کے جتنے گرام، موسم اتنا ہی ٹھنڈا۔ کوئی تیسرا دن بارش کے بغیر نہیں گزرتا۔ اپریل تو ہے ہی ٹھنڈا ، جون اور جولائی میں بھی کمبل اور رضائی کے بنا گزارا نہیں۔ 9 دنوں میں شاید دو تین دن ہی دھوپ دیکھنے کو ملی۔ ہماری واپسی بھی تیز بارش میں ہی ہوئی۔
راولاکوٹ شہدا اور غازیوں کی دھرتی کہلاتی ہے۔ یہاں کے غیور باسیوں نے تحریک آزادی کشمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس خطہ کو آزادی دلائی۔یہ علاقہ تعلیم ، ترقی اور اعلی معاشرتی اقدار کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے لیکن اس بار یہ بات سن کر بہت دکھ ہوا کہ اب پرانی روایات دم توڑتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے راولاکوٹ اور اس کے ملحقہ علاقوں دریک، حسین کوٹ، چھوٹاگلہ اور بنجونسہ میں چوری، نشہ اور دیگر جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔ انہی دنوں میں حسین کوٹ کی ایک پنتالیس سالہ خاتون نے دریک ڈیم میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ خودکشی کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ حکام اور علاقے کے معززین کو ان امور خصوصا نوجوانوں کو نشہ کی لت سے بچاکر مثبت، تعمیری اور سماجی خدمات میں مصروف کرنے کے اقدامات کرنے چاہیے۔
2005 کے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے متاثر ہونے والی سرکاری عمارات کو شاندار انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ، سی ایم ایچ ، سوشل ویلفیئر کمپلیکس اور عدالت وغیرہ تعمیر کا بہترین نمونہ ہیں۔ جو راولاکوٹ کی رونق کو دوبالا کر رہے ہیں۔ راولاکوٹ کے قریبی علاقہ بھیکھ میں لطیف میموریل کینسر ہسپتال دیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ یہ ہسپتال کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا مریضوں کا علاج بالکل مفت کر رہا ہے۔
زلزلہ کے بعد ہی موبائل فون، ایف ایم ریڈیو سروس اور انٹرنیٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔ موبائیل فون اور انٹرنیٹ سروس بہت سست روی کا شکار ہے۔ تعلیمی اداروں اور کاروبار کی راہ میں اس طرح کی رکاوٹیں خاصی مشکلات کا باعث بن رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں راولاکوٹ کے عوام کو فون اور انٹرنیٹ کی اچھی سہولیات سے دور رکھنا قرینِ انصاف نہیں۔ حکومت وقت کو فوری ان مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ پرنٹ میڈیا کے میدان میں بھی راولاکوٹ کافی ترقی کر چکا ہے۔ مقامی سطح پر کئی اخبارات پرنٹ کیے جاتے ہیں ۔ان میں مشہور اخبارات کشمیر دھرتی، پرل ویو، پونچھ ٹائمز ، مجادلہ وغیرہ شامل ہیں۔
راولاکوٹ شہر میں غزہ کے مسلمانوں کی امداد کے لیے لگائے گئے فنڈز کے سٹال بھی دیکھنے کو ملے۔ کچھ سٹال تو معروف سیاسی و سماجی تنظیموں کے تھے لیکن کچھ غیر معروف اور بے نامی سٹال بھی تھے تو عوام سے گزارش ہے کہ فنڈز دینے سے پہلے یہ تسلی کر لیں کہ فنڈز آپ درست ہاتھوں میں دے رہے ہیں ۔
ایک عرصہ بعد گاؤں میں روایتی عید منانے کا لطف آیا ۔ رشتہ داروں، دوستوں سے اور پیاروں سے ملاقاتیں ہوئیں، پرانی یادیں تازہ ہوئیں، آبائی قبرستان میں والدین اور دیگر مرحومین کی قبروں پر حاضری دی تو یہ احساس ہو کہ دراصل آخری منزل یہی ہے اورکشمیر کو ’قبرستان‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیو نکہ کشمیری روزگار کے سلسلے میں کہیں بھی جائیں ، وفات کے بعد انہوں نے کشمیر میں ہی دفن ہونا ہوتا ہے۔
چند سیاحتی مقامات پر جانے کا اتفاق بھی ہوا، جیسے چڑیا گھر اور جھیل ۔ تولی پیر جانے کا منصوبہ بارش اور اولوں کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔ سیاحوں کی کثیر تعداد ان علاقوں میں عید منانے آئی تھی لیکن ان مقامات پر صفائی ستھرائی اور کھانے پینے کا کوئی معقول انتظامات نظر نہ آئے۔ چڑیا گھر کی طرف جانے والی سڑک انتہائی ناقص اور حفاظتی حصار سے عاری ہے جو کہ کسی بھی وقت کسی حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔ حکومت کی گرفت کہیں بھی دیکھنے کو نہ ملی۔انتظامیہ کو جلد از جلد اس طرف توجہ دینا ہو گی۔
عید کی دوسری شام استاد محترم افتخار الدین صاحب کے ساتھ ایک عرصے کے بعد ایک طویل ملاقات ہوئی۔ استاد محترم ملکی معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل پر نالاں نظر آئے۔ ایک نئی جمہوری جماعت کو ان مسائل کا حل گردانتے ہیں۔ محترم افتخار صاحب ہمارے علاقے میں سماجی ترقیاتی کاموں کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان سے مل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ پاک انہیں صحت ، ایمان اور کامیابی والی لمبی عمر عطا فرمائے۔
اس ۹ روزہ دورے کو یاد گار بنانے میں برادر اصغر محترم پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمو د ساجد اور ان کی اہلیہ محترمہ یعنی ہماری بھابھی صاحبہ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا۔ ہم ان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور دست بدعا ہیں کہ اللہ پاک انہیں اپنی شان کے مطابق بہترین اجر عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ ان کے بچوں کا بھی شکریہ جن کا ہمارے بچوں کے ساتھ کھیل کھیل میں یہ وقت اچھے انداز میں گزرا۔ اس کے علاوہ بڑے بھائی جان محترم خالد محمود خالد صاحب ، ان کی فیملی ، آپا جی اور ان کے بچوں اور بہو کا بھی بہت شکریہ، چھوٹی بہن اور بہنوئی محترم ظہیر صاحب کا بھی ڈھیروں شکریہ۔ ان سب نے ہمارے لیے خصوصی دعوتوں کا اہتمام کیا۔چھوٹے چچا جی کا بھی شکریہ۔ وہ خاص طور پر ہم سے اور بچوں سے ملنے تشریف لائے۔ اس کے علاوہ کزنز ، رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی بے حد شکریہ اور ڈھیروں دعائیں سب کے لیے۔ ہماری ایک پھوپھی بہت بیمار ہیں تو ان کے لیے دعاوں کی درخواست ۔ان کے علاوہ بھی جو بیمار ہیں ان سب کی صحتیابی کے لیے دعاوں کی درخواست ہے۔ ہم راولاکوٹ اور آپ سب راولاکوٹ والوں کو بہت مس کر رہے ہیں۔ سب خوش رہیں اور خوشیاں تقسیم کرتے رہیں۔ زندگی نے وفا کی تو پھر ملیں گے انشا اللہ ۔ بقول شاعر، یار زندہ صحبت باقی۔
امجد محمود امجد
امجد محمود امجد سوشل ورکر ہیں۔ حساس دل اور مثبت مزاج کے ساتھ، ہمدرد و فکرمند قائد اور معاشرے کی بہتری اور ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ لکھاری اور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی شعبہ اور غیر سرکاری تنظیموں میں گزشتہ بیس سال سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔