راجا محمد شفیق خان
ہم زندگی کے اڑھائی عشرے اچھی تعلیم کے باوجود “راجا” کو “راجہ” لکھتے رہے، گویا قلعہ معلیٰ سے اترا ہوا کوئی فرمان ہو! پھر ایک روز راجا صاحب ہماری زندگی میں آئے، جنہوں نے ٹھوڑی پکڑ کر فرمایا:
“بابا! ’راجہ‘ نہیں، ’راجا‘ ہوتا ہے۔ یہ اردو ہے، سنسکرت یا ہندی نہیں!” اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے اسلام آباد کے ایک مرکزی ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹرتھے، مگر یہ عہدہ ان کی شان میں اس طرح چسپاں تھا جیسے گھی پر چھینک!
جب ہم نے تعلیم کے میدان میں قدم رکھا، تو اچھا خط طالب علم کی سب سے بڑی خوبی سمجھی جاتی تھی۔ ہم نے راجا صاحب سے اپنے اساتذہ کے خط ٹھیک کرنے کی “خدمات” لیں۔ بلا شبہ سینکڑوں اساتذہ ان کے شاگرد بنے، اور ہزاروں بچوں تک یہ مہارت منتقل ہوئی۔ پھر کمپیوٹر، موبائل اور آئی پیڈ آئے، تو قوم نے سجدۂ شکر ادا کیا کہ قلم دوات سے جان چھوٹی۔ راجا صاحب اس “جدت” پر ایسے روئے جیسے کسی نے ان کی گود سے بچہ چھین لیا ہو!
جب ہمارے بڑے بابا جی نے ہماری تعلیمی استعداد بڑھانے کے لیے ایجوکیشنل لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ (ای ایل ایم) میں ماسٹر کروانے کا فیصلہ کیا، تو راجا صاحب بھی “کُود کر” شامل ہو گئے۔ فرمایا:
“ہم بھی ای ایل ایم کریں گے۔ یہ ہمارا ’ذوقِ بے موقع‘ ہے!” حالانکہ ہیڈ ماسٹری ان کی منزلِ آخر تھی، جو مل چکی تھی۔ مزید تعلیم نے نہ ان کے کیریئر کا کچھ بگاڑنا تھا، نہ بچوں کا۔ بس یوں ہم کلاس فیلو بن گئے۔ کلاس میں ان کا ہر جملہ ایسے سجتا تھا جیسے دیوانِ غالب کی شرح!
راجا صاحب کی محفل میں بیٹھیں، تو بالکل نہیں لگتا کہ پچھلی صدی کے انسان سے مل رہے ہیں۔ بلکہ اپنے جیسے لگتے ہیں—جیسے کوئی پرانا ریڈیو نیا اینٹینا لگا کر چل رہا ہو! ان کی باتوں میں ایسا رس چڑھا ہوا ہے کہ سن کر دل کرتا ہے”اب اس محفل کو پنڈلی سے باندھ لو۔ پہلی ملاقات کے بعد دوبارہ، سہ بارہ، بلکہ سو بار ملنے کا جی چاہتا ہے۔ وہ ماہانہ فون کر کے ہمیں شرمندہ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی پوچھتے ہیں:
“بھئی، زندہ ہو؟” تو کبھی یوں:
“تمہاری قبر پر پھول ڈالنے کا وقت آ گیا ہے؟”
خالص محبت کرنے والے ہیں۔ یہ ظرف انہیں کہاں سے ملا؟ شاید اپنے اپنے آباو اجداد سے سے ورثے میں ملا ہو! آج کل کی صحبت میں ایسا ظرف ملنا، جیسے کانٹے چنتے ہوئے گلاب ڈھونڈنا۔ ان کا چہرے اور زبان ایسے مغالطے میں ڈالتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا رو رہے ہیں یا ہنس رہے ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں جب ہمارے “دنیا سے کوچ” کی خبر پھیلی، تو راجا صاحب نے گھر میں پورا سوگ منایا۔ جب ہم زندہ حالت میں ملے، تو انہوں نے گلے لگ کر اتنا زور سے رونا شروع کیا کہ ہم نے سمجھا: شاید ہنس رہے ہوں جب الگ ہوئے، تو آنسوؤں کی لڑی چہرے پر بہہ رہی تھی۔ تب پہلی بار احساس ہوا: واہ! واقعی دل بھی رکھتے ہیں
راجا صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاص بلکہ بہت ہی خاص انسان ہونے کے باوجود عام رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بول میری بکری
چند دن قبل راجا صاحب نے کال کی:
بھائی! ہمارے پاس کچھ زائد از ضرورت پیسے کہیں سے آگے ہیں۔ بتاؤ کہاں ’خرچ‘ کرنے ہیں؟
ہم نے سمجھا مذاق ہے، مگر اگلے ہی لمحے انہوں نے پرانے کلاس فیلوز کو جمع کر کے کھانا کھلانے کا پروگرام بنا دیا۔ جب جمیل احمد صاحب (حلیم طبع، مخلص، اور صاحبِ دانش) بھی اس “سازش” میں شریک ہو گئے، تو لگا:اب تو یہ محفل ہو کر ہی رہے گی آخر کار تاریخ 2 جولائی جم خانہ کلب، راولپنڈی اور وقت بعدِ مغرب طے ہوا۔ راجا صاحب نے حکم جاری کیا:
“نمازِ مغرب وہیں پڑھنی ہے”
ہم چھٹی کے بعد دوڑے بھاگے اسلام آباد سے راولپنڈی کی طرف گاڑی دوڑائی۔ راستے میں سوچتے رہے:
جم خانہ‘ کی اصطلاح برطانوی راج کی دین ہے، جس کا مطلب ہے ’مجلسی مقام‘۔ آج کل یہ ’راجا صاحب کی محفل‘ کے لیے مختص ہو گیا ہے
پہنچے تو راجا صاحب کا نام و نشان نہ تھا۔ پوچھا راجا جاوید اقبال صاحب نے کھانے پر بلایا ہے۔ سنتری نے ہمیں غور سے دیکھا۔ شکر ہے راجا صاحب نے پہلے بتا دیا تھا جم خانہ میں انسانوں والی شکل و صورت بنا کر آنا۔ ہو سکے تو سوٹ بوٹ ورنہ کم ازکم واسکٹ ضروری ہے۔ سنتری نے کہا چلے جائیں لیکن اس کو ہمارے آنے کی کوئی زیادہ خوشی نہیں تھی۔ مغرب کی نماز میں راجا صاحب نمودار ہوئے۔ اور نماز کے بعد بولے
“تمہیں ’جم خانہ‘ کا مطلب پتا ہے؟”
ہم چپ، تو بولے:
جِم = جسم، خانہ = گھر۔ یعنی یہاں جسم گھڑنا ہے، پیٹ نہیں بھرنا۔۔
سو، اب ہم سب “جسم گھڑنے” کی تیاری میں مصروف ہیں۔
باقی روداد اگلی قسط میں!
راجا محمد شفیق خان
راجا محمد شفیق خان شعبہ تعلیم و تدریس کا ایک جانا پہچانا نام ہیں، جنہوں نے گزشتہ تیس برسوں سے اس میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ تحریر و تصنیف سے انہیں فطری لگاؤ ہے، اور ان کے قلم سے نکلی بامقصد تحریریں سوشل میڈیا پر قارئین کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔ آج کل وہ ایک معروف غیر سرکاری تعلیمی تنظیم میں جنرل مینیجر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
2 Responses
ابھی تو جم خانہ میں پہنچے ھی ھیں
کچھ نوش جاں ھو تو آ گے بڑھیں
MashaAllah bht khoob Sir Shafeeq Khan sahib.
I am proud to have such a Father Like you Love you Papa jee(Jawed Iqbal Raja).