Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

جاوید اقبال راجا

راجا صاحب کا عشائیہ

راجا محمد شفیق خان

کوآرڈینیشن کی تمام ذمہ داریاں جمیل احمد صاحب نے ایسے سنبھالی ہوئی تھیں جیسے شادی میں ایک بھائی سب کچھ سنبھال لیتا ہے۔  یکم جولائی کو جمیل صاحب سے ملاقات ہوئی، ہم پروگرام ڈسکس ہی کر رہے تھے کہ راجا صاحب کی کال آ گئی۔

“مینیو کیا ہے؟”

جمیل صاحب نے عاجزی سے عرض کی:

“سر، آپ خود دیکھ لیں…”

تو فرمان ہوا:

“آپ ساتھ ہوتے تو کچھ مشورہ کر لیتے۔ اب میں وہی مینیو آرڈر کر  رہا ہوں جو عام مسلمان کھاتے ہیں۔ باقی آپ کی مرضی!”

دو جولائی آیا  ہم شام 6 بجے آفس سے نکلے، اور ٹریفک کا یوں سامنا کیا جیسے جلوس میں شامل ہوں۔ جم خانہ پہنچے تو دل نے کہا کہ راجا صاحب یقیناً پھولوں کے ہار لیے، سرخ قالین پر استقبال کو کھڑے ہوں گے۔ مگر ہال میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا ،ہم کچھ زیادہ ہی پروٹوکول کی توقع لیے تھے۔

راجا صاحب غائب تھے۔ موجود تھے: جمیل احمد صاحب، صابر صاحب، ظفر نذیر صاحب اور سردار طارق اقبال صاحب۔ جمیل صاحب نے ہماری طرف ایسے دیکھا جیسے امی دلہن کا جوڑا چیک کرتی ہیں — پھر تھوڑی تاخیر سے بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ لباس کے بارے میں راجا صاحب کی سخت ہدایات تھیں۔ اور جمیل صاحب معائنہ  کار کے طور پر باریکی سے جائزہ لے رہے تھے۔

مغرب کا وقت ہوا تو نیچے “حفیظ مسجد” پہنچے — خوبصورت اور سجی سنوری مسجد۔ جماعت کا انتظار کر رہے تھے کہ راجا صاحب بھی آ گئے اور مصافحہ شروع کر دیا جیسے کسی جلسے میں ووٹ مانگ رہے ہوں۔ ہم تو معانقے کے موڈ میں تھے لیکن مسجد کے آداب نے بازو روک لیا۔

نماز باجماعت کے بعد جب پیچھے مڑ کے دیکھا، تو تیسری صف میں وہی جنھیں ہم “مرشد و مربی” کہتے ہیں — سردار اعجاز افضل صاحب — تشریف فرما تھے۔ ہمیں لگا یہ سازش ہے۔ راجا صاحب نے ہمیں چپ کروانے کے لیے مرشد کو بلا لیا۔ اب تو ہماری زبان جیسے وضو کر کے سو گئی ہو۔ جس محفل میں اعجاز افضل بیٹھے ہوں، وہاں راجا صاحب کے بارے میں “حق بات” کون کہہ سکتا ہے؟

مسجد سے باہر نکلے تو راجا صاحب “گھیراؤ” میں تھے۔ ہمیں لگا کچھ لوگوں کو چھ نمبر سنا رہے ہوں۔لیکن یہ مہمان عقیدت مند تھے۔ راجا صاحب تعارف کرواتے رہے۔

“یہ میرے کلاس فیلو ہیں!”

اجنبیوں میں ایک پہچانا چہرہ بھی تھا — احمد حاطب صدیقی!

جی ہاں، “یہ بات سمجھ میں آئی نہیں” والے۔ اب تو محفل میں ادبی خوشبو آ گئی۔

ہال میں داخل ہو کر دبک کر بیٹھ گئے، کیوں کہ راجا صاحب اب بھی کرسی پر نہیں بیٹھے تھے۔ ہمیں ان کا کھڑا ہونا ایسے کھٹک رہا تھا جیسے دولہا بغیر سہرا پہنے بیٹھا ہو۔

خیر، جمیل احمد صاحب نے انہیں اپنی کرسی پیش کر دی، مگر راجا صاحب چین سے کہاں بیٹھنے والے — کبھی کسی مہمان کو  راستہ بتا رہے، کبھی کسی کو ہاتھ سے پکڑ کر لا رہے۔  میرپور و بھمبر اسلام آباد اور راولپنڈی سے مہمان تشریف لائے تھے۔ مختار عباس، ظفر نذیر، صابر حسین، شاہد رفیق، ارشد محمود، اور  اسلم حجازی، خالد کاظمی طارق محمود طارق ساتھ بابا جی محمود احمد، پیر صاحب، حاجی صاحب — شوکت محمود قاضی صاحب سب جمع تھے جیسے پیروں کی محفل میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راجا صاحب (حصہ اول)

کھانے میں بیف کباب ایسے کہ گویا زبان پر پگھل جائیں، چکن بوٹی اور قورمہ کے ذائقے ایسے کہ جیسے زبان کے چکر لگا لیں، نان و چاول بھی تازہ۔

کھانے کے دوران طارق محمود طارق صاحب نے پوچھا:

“یہ کھانا کون اسپانسر کر رہا ہے؟”

ہم نے فخر سے کہا: “راجا صاحب!”

بولے:

“راجا صاحب کے پاس اتنے پیسے؟”

ہنسی تو ہم سے روکی  نہ گئی۔ یاد آیا 2001 میں جب راجا صاحب کے ساتھ ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد بیٹھے تھے کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔موبائل پاکستان میں ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا تو راجا صاحب شان کے ساتھ موبائل کان کے ساتھ لگا کر ہیلو ہیلو کر رہے تھے۔ فارغ ہوئے تو ہم نے پوچھا:

“آپ کا ہے؟” کہنے لگے جی اپنا ہے۔ میں نےدوبارہ  پوچھا آپ نے اپنا لیا ہے۔۔۔

تو بازو سے پکڑ کر محراب میں لے گئے، اور بولے کلمے کی قسم: اپنا ہے!”

پھر فرمایا:

“تمہارا قصور نہیں، شکل ہی ایسی ہے کوئی یقین نہیں کرتا۔”

کھانے کے بعد دوسرے ہال کا رخ ہوا — ہمیں لگا اب کو چٹکلے دار ماحول ہو گا، لیکن جمیل صاحب نے نہ صرف تلاوت سے آغاز کروایا بلکہ مرشد سردار اعجاز افضل صاحب سے خطاب بھی کروایا۔ ان کی گفتگو تصوف، نماز اور اصلاح پر تھی — یوں لگا الفاظ خود قطار باندھے سننے آ گئے ہوں۔

محفل زیادہ سنجیدہ ہونے لگی تو احمد حاطب صدیقی صاحب نے وہی مشہور نظم سنائی اور محفل کو تازہ دم کیا۔ پھر راجا صاحب کو اظہارِ تشکر کا کہا گیا۔ انھوں نے بولنا شروع کیا تو راجا مختار عباس درمیان میں بول اٹھے: سچ کہا تھا کسی نے:

“اگر راجا ہو اور خاموش رہے تو اسے گولی مار دینی چاہیے!”

ہمیں لگا اب محفل میں ڈرامائی موڑ آ گیا ہے۔ ہم نے بھی موقع دیکھا اور چند یادیں سنا ڈالیں۔

آخر میں، مرشد و مربی اعجاز افضل صاحب کی دعا سے محفل کا اختتام ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *