جمیل احمد
نجانے آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے میرے بچپن کے دن۔ والد گرامی کی واپڈا میں ملازمت کی وجہ سے بچپن کے ابتدائی دن میرپور میں گزرے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دوسری جماعت تک والد صاحب نے مجھے گھر پر ہی پڑھایا اور غالباً میرپور میں اس وقت کے واحد بوائز ہائی سکول میں میرا داخلہ تیسری جماعت میں ہوا۔ ذہن کے دریچوں سے ماضی کے منظر میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس دور کے بہت ہی دھندلے سے نقش نظر آتے ہیں۔
البتہ اتنا یاد ہے کہ میرے گاؤں چہڑھ راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے سردار نذیر صاحب جو اب امریکہ میں مقیم ہیں، بسلسلہ روزگار میرپور میں مقیم تھے اور والد صاحب سے خصوصی تعلق رکھتے تھے۔ عرصہ دراز سے ہزاروں میل کی دوری کے باوجود اب بھی وہ محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ 1969 میں والد صاحب کا تبادلہ تربیلا ڈیم میں ہوا، اور یوں میرا داخلہ پروجیکٹ ہائی سکول تربیلا ڈیم میں ہو گیا۔ میٹرک پاس کرنے تک میں اسی سکول کا طالب علم رہا۔
یہ بھی پڑھیں: قصہ بیتے دنوں کا
سکول کی عمارت اس وقت کے مطابق بہت شاندار تھی۔ بڑا سا بلند داخلی دروازہ، کشادہ اور روشن کلاس روم جس میں ہر طالب علم کے لیے عمدہ کوالٹی کی علیحدہ کرسی اور ڈیسک، استاد کے لیے قدرے اونچا سٹیج، اچھی لائبریری، بہترین لیبارٹری، خوب صورت بڑا کثیر المقاصد ہال، کھیل کا میدان، غرض طلبہ کی ضروریات کے مطابق ہر سہولت مہیا کی گئی تھی۔ لیکن سکول تو استاد اور طالب علم آباد کرتے ہیں۔
دھندلے نقوش کچھ کچھ واضح ہونے لگے ہیں۔ یادوں کی سکرین پر سکول کے پرنسپل عبد الرزاق صاحب کی تصویر ابھر رہی ہے۔ قد درمیانہ، گرے رنگ کی پتلون پر آف وہائٹ شرٹ پہنے کبھی کبھی وہ ڈھیلی پتلون کے بیلٹ کو ہاتھوں سے اپنی جگہ پر سیٹ کرتے نظر آتے تھے۔ سکول کے نظم و نسق کو بے حد حسن و خوبی سے سنبھال رکھا تھا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس قدر دلچسپی کہ گھر آ کر پڑھائی کے بارے میں دریافت کر لیا کرتے تھے۔ 1976 میں میرے میٹرک پاس کرنے تک سکول کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ بعد ازاں ان کی جگہ ہمارے بیالوجی کے استاد سرور صاحب نے سنبھالی۔ انہوں نے بھی طویل عرصہ تک سکول کی خدمت کی۔
مس زینت ہمیں پرائمری کلاسز میں انگریزی پڑھاتی تھیں۔ دراز قد، اچھی شخصیت کی مالک، خوش شکل، خوش لباس، آنکھوں پر بڑے سیاہ شیشوں والا دھوپ کا چشمہ پہنے ان کا سکیچ میری آنکھوں میں ابھی تک محفوظ ہے۔ ایک تھیں مس سلمیٰ۔ ہم نے پرائمری میں ان سے اردو پڑھی۔ بے حد شفیق۔ مجھے یاد ہے سکول نے ایک بار مری اور دوسری بار سوات کے تفریحی ٹور کا اہتمام کیا۔ ایک ٹور میں میری طبیعت خراب ہو گئی۔ مس سلمیٰ بار بار مجھ سے طبیعت کے بارے میں دریافت کرتیں۔ پھر وہ میرے لیے دوا لے آئیں، جس سے میری طبیعت کچھ سنبھلی۔
احمد حسن صاحب ہمارے ریاضی کے استاد تھے۔ ہمیشہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس نظر آئے۔ کنپٹیوں پر چاندی کے تار ان کی ڈھلتی عمر کا پتہ دیتے تھے۔ نہایت سخت استاد کے طور پر مشہور تھے۔ ہم نے انہیں کبھی کسی کی تعریف کرتے ہوئے نہیں سنا۔ ایک بار ریاضی کے ٹیسٹ میں، میں نے سو فی صد نمبر لے لیے۔ اب سر تعریف کرنا چاہتے تھے لیکن مزاج آڑے آ رہا تھا۔ اس کا طریقہ یہ نکالا کہ سر نے مجھے کلاس روم کے فرش پر لٹایا، میری چھاتی پر پاؤں رکھا اور کلاس کو مخاطب کر کے کہا، دیکھو اس لڑکے نے پچاس میں سے پچاس نمبر لیے ہیں۔ یہ تھا ان کی حوصلہ افزائی کا انداز۔
دوسری طرف ولی الرحمان صاحب تھے۔ عربی پڑھاتے تھے۔ ذرا پختہ عمر کے تھے۔ سیاہ قراقلی ٹوپی کے ساتھ سفید شلوار قمیض زیب تن کیا کرتے۔ کلاس میں ان کی میرے ساتھ ایک خاص طرح کی بے تکلفی تھی۔ وہ کوئی سوال کرتے، میں جواب دیتا۔ وہ سٹیج سے ہو کر کہتے، تو ہو جائے ہوائی پنجہ۔ وہ سٹیج سے ہاتھ پنجے کے انداز میں لہراتے، میں اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے جوابی پنجہ لہراتا، اور اس طرح ہمارا ہوائی پنجہ مکمل ہو جاتا۔ شاید انہوں نے مضمون سے اتنی محبت پیدا کر دی تھی کہ میں عربی میں ہمیشہ ٹاپ پر رہتا۔ اس کا اثر آگے چل کر یوں بھی ظاہر ہوا کہ یونیورسٹی کے زمانے میں، میرے بہت سے ہم جماعت عربی پڑھنے کے لیے مجھ سے رجوع کرتے۔
مڈل کلاسز میں اردو ہم نے امتیاز علی تاج صاحب سے پڑھی۔ اردو محبت سے پڑھاتے تھے۔ مجھے لگتا ہے اردو سے میرے لگاؤ کی ابتدا انہی کی بدولت ہوئی۔ میری خاص حوصلہ افزائی کیا کرتے۔ اللّہ نے ہمارے گھرانے کو خوش خطی کا ذوق عنایت کیا ہے۔ ایک مرتبہ میری نوٹ بک کلاس کو دکھا کر کہنے لگے، اس لڑکے کی کاپی دیکھ کر تمہیں رونا چاہیے۔ ستم ظریف ہم جماعتوں نے وہیں جھوٹ موٹ رونا شروع کر دیا۔
پھر مرزا یوسف صاحب تھے، ہمارے ڈرائنگ کے استاد۔ بلیک بورڈ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتے تو دیکھتے دیکھتے دلکش مناظر ابھرنا شروع ہو جاتے۔ آرٹ اور خوب صورت مناظر کا ذوق پیدا کرنے میں یقیناً انہی کا کردار ہے۔
محمد یعقوب صاحب کو کیسے بھولوں۔ ان سے کیمسٹری پڑھی۔ بے حد محنتی استاد۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں بغیر کسی مفاد کے اضافی کلاسز لیتے۔ ان کے پاس لائبریری کا چارج بھی تھا۔ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد میرا زیادہ تر وقت لائبریری میں گزرتا۔ بعض اوقات ایک ہی نشست میں کتاب پڑھ لیتا اور یعقوب صاحب کمال مہربانی سے دوسری کتاب جاری کر دیتے۔
اقبال صاحب لیب اسسٹنٹ تھے۔ لیبارٹری کو بہت اچھی حالت میں رکھتے اور طلبہ کا بہت خیال رکھتے۔ 17 دسمبر 1971 کی اندوہ ناک صبح کو میں فراموش نہیں کر سکتا۔ سقوط ڈھاکہ کے دوسرے دن سکول پہنچے تو حشر کا سماں تھا۔ سب لوگ دھاڑیں مارتے ہوئے رو رہے تھے۔ دو سینئر طالب علموں قمر اور ثالث کے چہرے گویا اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ایسا کرب میں نے اپنے کسی عزیز کی موت پر بھی نہ دیکھا ہو گا۔ دل نے زخم کھائے ہیں، لیکن وہ گھاؤ بہت گہرا تھا، اب بھی مندمل نہیں ہوا۔
اس وقت کے دوستوں کی بات کروں تو ہارون الرشید، غالب، شاہد، اجمل، ظاہر اور بہت سے دوسرے نام یاد آتے ہیں۔ جانے کہاں کھو گئے وہ دوست۔ ایک لڑکے کو شاعری کا شوق تھا۔ ادا تخلص کرتا تھا۔ ایک روز بڑے فخر سے ایک قطعہ بنا کر لایا:
آدھے تیرے ہیں، آدھے میرے ہیں
میرے ہاتھ میں جو بٹیرے ہیں
آؤ ان کو بھون کر کھائیں ادا
بڑی مشکل سے میں نے گھیرے ہیں
کئی دن تک دوستوں میں اس قطعے کا چرچا رہا۔ خیال آتا ہے کسی دن واپڈا ہائی سکول تربیلہ ڈیم جاؤں اور اپنی مادر علمی کا ایک ایک کونا جی بھر کے دیکھ لوں، جس میں میرے محترم اساتذہ اور پیارے دوستوں کی یادیں بسی ہیں۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔