ڈاکٹر محمد صغیر خان
کہنے کو میں اسے بچپن سے نہ سہی لڑکپن سے تو جانتا ہی ہوں لیکن جب بھی میں نے سنجیدگی سے اس کی جانکاری سے متعلق سوچا تو مجھے یوں لگا کہ میں اس درمیانے قد، گول چہرے، مناسب جثے والے ہنستے مسکراتے شخص، جو مدتوں سے سرچہرے پر سفید بال اوڑھے، بزرگی کی چال چلتا مسلسل آگے بڑھتا رہا ہے، کو بالکل بھی نہیں جانتا… بس شاید اتنا ہے کہ اس کی ایک پرچھائی سی ہے جو میری سوچوں پر چھائی سی ہے۔ وہ ایک مستقل مزاج انسان ہے جو گاوں گوٹھ کی عمومی زندگی جیتا، آج ’خصوصی حیات‘ کی حدوں کو پار کر چکا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کا اور میرا بچپن لڑکپن ملتا جلتا سا گزرا ہو گا کہ ہم اس عہد کے اکثر دوسروں کی طرح ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جنہیں حددرجہ مفلوک الحالی سے نہ بھی پالا پڑا ہو مگر کسی نوع کی مرفہ الحالی نے بھی ہمارے کچے ڈیروں میں جہاتی نہ ماری ہو گی۔ وہ اسی دیہاتی زندگی کا جم پل ہے جو آج بھی میرے اندر پورے طور پر رواں دواں ہے اور عہد جدید کے کرداروں کے لئے بے حد گراں ہے۔ وہ ذہین، فطین تو تھا ہی لیکن ایک مخصوص سوچ اور ضبط سے جڑ کر وہ ایک خاص تہذیب و ترتیب سے بھی شناسا ہوا۔ میں نے دہائیوں قبل جب اسے دیکھا وہ لائن کے دوسری جانب نہیں بلکہ دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑا تھا یا میں اس کے حساب سے ’’پارلے کنڈے‘‘ جا پڑا تھا۔ وہ اپنے کنڈے اپنی راہ چلتا رہا، کبھی تیز کبھی ہولے ہولے۔ وہ مسلسل محو سفر رہا۔ بدلتے حالات میں بھی اس نے اپنی راہ نہیں بدلی، سو راستوں کے اختلاف کے باوجود، اس کی یہ مستقل مزاجی مجھ ایسے ’’گوال گدروں‘‘ کے دل میں اس کے لئے عزت و احترام کا سبب ہوئی۔ اتفاق سے تب سے اب تک ہم ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے مگر کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہے۔ صدشکر کہ یہ دوری کبھی ’فتوری‘ کے ذائقے سے آشنا نہیں ہوئی بلکہ یہ اورطرح کے أد پار کا ’’چسکا‘‘ اور مزہ دیتی رھی۔
سیاسی اور فکری مستقل مزاجی اور بعد کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ ایک قابل و ذہین فرد ہے جس نے ہر موقع پر اپنی قابلیت ثابت کی ہے۔ وہ طلبہ سیاست میں فعال رہا تو طلبہ قیادت میں بھی اگلی صفوں میں گنا جاتا رہا۔ ایک استاد کے طور پر اس نے بے پناہ عزت کمائی اور اساتذہ کی سیاست، قیادت بھی اپنے سیکھے ہنر طریقے کے باعث سلیقے سے کی۔ تعلیمی عمل میں وہ مسلسل آگے بڑھتا رہا، اس نے نہ صرف ڈاکٹریٹ کیا بلکہ اب تو پوسٹ ڈاکریٹ کا خربطہ تھامے وہ ہم سب میں سے زیادہ نمایاں اور باقار ہے۔ وہ محض ’خطیب‘ ہی نہیں ایک مکمل ادیب بھی ہے اور گجا محقق اور نقاد بھی۔ اس کی خوش بختی رہی ہے کہ اسے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا قرب حاصل رہا اور ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کا ساتھ بھی۔ فکری ہم آہنگی، نظریاتی یکسانیت اور تعلیمی عمل میں یکجائی نے اس کے سیکھنے کیلئے زیادہ مواقع بہم کیے اور آگے بڑھنے میں معاونت بھی کی ۔ وہ دلنشیں نثارؔ ہے۔ اس کا ثبوت جہاں ’وادی گلپوش میں‘ ہے وہاں سفرنامہ حرم بھی اس کی کھلی گواہی ہے۔ وہ تحقیق و تدوین میں بھی آگے بڑھا ہے، یہاں اس نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کے ’’ناموں‘‘ کو خوبصورتی سے مدون کیا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی فعال زندگی کی کچھ مجلسوں کو ’محفل دیرینہ‘ کی صورت لکھا تو ساتھ ہی اقبال اور کشمیر کے تعلق کو بھی موضوع بنایا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’اقبالیات‘ اب اس کا ’اوڑھنا بچھونا‘ یا اس کی ایک پرت بن چلی ہے کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لئے یہی موضوع چنا گیا ہے۔ اقبالؔ کے ساتھ قائداعظم کا ذکر لازم ہے۔ اس نے اسے بھی نہ چھوڑا اور ’’قائداعظم اور مشاہیر کشمیر‘‘ کے عنوان تلے ان کے خطوط مدون کر ڈالے۔
وہ ظفر ہے اور ظفر حسین ظفر بھی… دوہرے ظفر نے اس کیلئے کامیابی کے مزید در کھولے۔ اس عمل میں اُسں نے اپنی نظریاتی وابستگی کو سامنے رکھا اور تخلیقی سفر میں بھی اسے رہبر کیا۔ اپنے حساب سے وہ سکہ بند نظریاتی ہے لیکن ایک بالغ نظر سیاسی کارکن کے طور پر وہ برداشت اور مروّت کو ھم سفر رکھتا ہے۔ یوں اس کا حلقہ احباب کافی وسیع ہے۔ وہ حلقے اور احباب کے انتخاب میں پوری سیانت کا مظاہرہ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تعلق میں دراڑ نہیں پڑنے دیتا اور کسی نہ کسی طرح سے پسندیدہ اور مجھ ایسے ناپسندیدہ کرداروں سے بھی ناطہ نبھائے جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے۔ استاد، ادیب، سیاسی کارکن بلکہ رہنما، ٹریڈیونین لیڈر، سماجی رابطہ کار اور بہت کچھ… وہ مطالعے کا رسیا بھی ہے، مگر اس باب میں بھی وہ اپنی پسند کو ترجیح دیتا ہے اور کبھی بھی ایسا کچھ نہیں پڑھتا جو اس کی عادت خراب یا بدل دے۔ وہ خوش گفتار اور ہنسوڑ شخص ہے۔ یوں تو شاید دوستوں کی محفل میں چہکتا مہکتا ہو گا لیکن باقی موقعوں پر دیکھ بحال کر کام کی بات کرتا ہے۔ وہ خوش قسمت بھی ہے کہ اسے زندگی میں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں اور مسلسل یہ عمل جاری ہے، لیکن وہ ربّ کی رضا کے تحت ایک سخت ترین مرحلے سے بھی گزرا ہے۔ اس کا جواں سال بیٹا جب ایک ناختم ہونے والے سفر پر نکل کھڑا ہوا تو یقینا وہ ٹوٹا ہو گا، بکھرا ہو گا، تڑپا ہو گا اور رویا ہو گا۔ مگر اس نے پھر ہمت کی، خود کو مجتمع کیا اور دوبارہ کمر باندھ کس کر اٹھ کھڑا ہوا۔
زندگی کے ایک طویل سفر کے بعد جب وہ ایک نئی سمت جانے والا ہے تو میرا گمان ہے کہ پرانی راہ پر دوبارہ چل نکلے گا۔ کیونکہ اس نے وہ راستہ کبھی چھوڑا ہی نہیں۔ وہ جب وہ سب نہیں کرتا ہوتا تھا تب بھی وہی سب کرتا رہا۔ ہاں یہ اس کی بلند بختی ہے کہ اس سب پر اس جیسوں کی سرزنش نہیں ھوٸی جس پر ہم غریب غرباء کی باقاعدہ پکڑ ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے وہ کسی اور راہ پر چل پڑے لیکن مجھے یقین ہے کہ گھوم پھر کر وہ راستہ بھی واپس وہیں آئے گا جہاں وہ ہے یا جہاں وہ ہونا چاہے گا۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ایک خوش وضع شخص ہے۔ اسی لئے مجھ سمیت سارے اس سے خوش رہتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ میں اور وہ ایک ہی ہیں۔ ہم دراصل دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں۔ میں دریا کے ایک کنارے پر کھڑا ہوں تو دوسرے کنارے پر کھڑا ہے۔ دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑا وہ شخص جو بھی ہے جیسا بھی ہے وہ ہمارا ہے، اپنا ہے اور پیارا بھی ہے کہ اختلاف تو زندگی کا حسن ہے۔ اس سے اختلاف تو ہوتا ہے اور یقینا ہوتا بھی رہے گا۔ لیکن اس سے دشمنی اور مخالفت یقینا نہ سمجھی تھی نہ کبھی ہو گی کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑا وہ شخص میرا ہمراز ہے اور ہمزاد بھی کہ وہ شہرزاد ہے اور یوں اپنا گرائیں ہے… تو ربّ اسے سلامت رکھے۔