Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

دنیا 2050 میں کیسی ہو گی؟

دنیا 2050 میں کیسی ہو گی؟

جمیل احمد

کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آج سے تقریباً 27سال بعد یعنی 2050 میں دنیا کیسی ہو گی۔ اگرچہ یہ بتانا کسی بھی انسان کے لیے  مکمل طور پرممکن نہیں کہ ہمارا مستقبل کیسا ہو گا، لیکن  سائنسدانوں کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہم آپ کو مستقبل کی دنیا کی چند جھلکیاں دکھانے کی کوشش کریں گے۔ہو سکتا ہے بہت سی پیشین گوئیوں کی علامات ہم ابھی سے دیکھنا شروع کر دیں ۔

آبادی میں اضافہ

2050 تک دنیا کی آبادی کم از کم 9 ارب سے تجاوز کر جائے گی اور ہندوستان کی آبادی چین سے زیادہ ہو جائے گی۔ 2050 تک دنیا کی 75 فیصد آبادی شہروں میں رہ رہی ہوگی۔ پھر آسمان کو چھوتی بلند و بالا عمارتیں ہوں گی اور اُس وقت کی سڑکیں  کئی منزلوں تک اونچی ہوں  گی۔ گھومنے پھرنے کے لیے عمارتوں کو اسکائی واک سے جوڑا جائے گا۔ ہریالی کی کمی کے باعث اس کی جگہ کنکریٹ کے جنگلات بنائے جائیں گے۔ اس وقت زمین کی اتنی کمی ہوگی کہ کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت سی بڑی عمارتیں کاشت کے قابل بنائی جائیں گی۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق 2050 تک سمندر کی سطح میں اضافہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے سمندر کے کنارے آباد کئی شہر اور جزیرے پانی میں ڈوب  جائیں گے۔ 50 فیصد ملازمتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیونکہ اس وقت زیادہ تر کام  روبوٹ سے لیے جا  رہے ہوں گے۔

میڈیکل سائنس میں تبدیلیاں

اگرچہ ہمارا یقین ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز فانی ہے، لیکن سائنس دان  2050 تک موت سے لڑنے کے لیے بہت سا کام کر رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے انسانی جسم پرفیکٹ نہ ہو لیکن ذہن کو محفوظ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہوں گی۔ مستقبل میں انسانی دماغ کو کمپیوٹر کے ذریعے جوڑ کر ہارڈ ڈسک میں محفوظ کیا جائے گا اور اس کا ڈیٹا کسی بھی وقت فائل کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔طب میں مسلسل ترقی سے اموات کی شرح میں بہت کمی آئے گی، اور اس وقت اوسط عمر  80 سال سے بڑھ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ تکنیکی ترقی کی وجہ سے کینسر جیسی بہت سی خطرناک بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔ ہر قسم کی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک ہی ویکسین کافی ہوگی اور تمام میڈیکل رپورٹس موبائل پر ہی آ جائیں گی۔ اسے ڈاکٹر کے پاس بھیج کر گھر بیٹھے مرض کا علاج ممکن ہو سکے گا۔

ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں

مستقبل میں، ہم آج کی نسبت زیادہ ٹیکنالوجی کے آلات استعمال کریں گے، اور سپر کمپیوٹرز آج سے کئی گنا تیز ہوں گے۔ 2050 تک نینو ٹیکنالوجی مصنوعی دماغ بنائے گی۔ ‘برین کمپیوٹر انٹرفیس’ کے ذریعے کمپیوٹر کو دماغ سے جوڑا جائے گا، جس کی وجہ سے ہم وہ تمام مسائل زیادہ  آسانی سے حل کر سکیں گے، جن کا حل دماغ سے ممکن نہیں تھا۔ایندھن کے طور پر  پیٹرول کا  استعمال ختم ہو جائے  گا۔ اس کی  بجائے ہائیڈروجن کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہم بہت سے کیمیائی عناصر کو ایندھن کے طور پر بھی استعمال کر سکیں گے اور کبھی نہ ختم ہونے والے ایندھن کے طور پر ہوا اور شمسی توانائی پر پہلے ہی تحقیق کی جا رہی ہے۔

فلائنگ کارز کا رجحان

 2050 میں اُڑنے والی کاریں عام طور پر استعمال ہوتی دکھائی دیں گی۔  تمام اڑنے والی گاڑیاں کمپیوٹر سے کنٹرول ہوں گی اور کسی حادثے کی صورت میں کمپیوٹر سسٹم گاڑی کو تصادم سے قبل کنٹرول کر لے گا۔ دبئی میں ایسی کاروں پراب بھی  تحقیق جاری ہے۔2050 تک سیلف ڈرائیونگ کاریں آنے کا بھی امکان ہے، کئی کمپنیاں سیلف ڈرائیونگ کاروں کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یہ کاریں عام طور پر روڈ سینسرز پر انحصار کریں گی،جس سے حادثات کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔ اس وقت کئی ترقی یافتہ ممالک میں خود سے چلنے والی میٹرو ٹرینیں چل رہی ہیں۔ اس طرح مستقبل میں خود سے چلنے والی کار کچھ ترقی یافتہ جگہوں اور ترقی یافتہ سڑکوں پر اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں

2050 میں ایسی ٹیکنالوجی سامنے آئے گی جس کی مدد سے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے لیے ایندھن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت تمام گاڑیاں مقناطیسی لہروں سے چلیں گی۔ جس کی مدد سے آپ کا سفر سستا اور آسان ہوگا۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس سے کوئی آلودگی نہیں ہوگی۔اس وقت آپ امریکہ اور سنگا پور کی بجائے چاند اور مریخ پر چھٹیاں گزار سکیں گے۔ اس وقت تک ایسا ایندھن آجائے گا جس سے کم ایندھن کے ساتھ دوسرے سیاروں پر جانا ممکن ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ چاند اور مریخ جیسے سیارے اور سیٹلائٹ بنائے جائیں گے جہاں درخت اور پودے رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت سی سہولیات بھی ہوں گی۔ ناسا اور کئی خلائی ایجنسیاں اس پر کام کر رہی ہیں۔

تھری ڈی  پرنٹ ٹیکنالوجی

2050 تک، تھری ڈی پرنٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ، کسی بھی چیز کو آسانی سے اسی شکل میں  بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اس چیز  کی CAD فائل کو کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے نکالنا ہو گا اور کچھ ہی دیر میں وہ چیز  تھری ڈی پرنٹر کے ساتھ تیار ہو جائے گی۔ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی مزید ترقی کی وجہ سے بہت سی بڑی چیزوں اور ہتھیاروں کی تیاری بھی بہت آسان ہو جائے گی۔2050 میں’انٹرایکٹو ہولوگرام ٹی وی’ آئے گا، جس میں یہ ہولوگرام ٹی وی موبائل کے ایک بٹن کے دبانے پر ہمارے سامنے آئے گا اور اس سے آپ تھری ڈی تصویروں کے ساتھ ساتھ ورچوئل رئیلٹی کو بھی محسوس کر سکیں گے۔

ڈیجیٹل اسکول کیسے ہوں گے؟

اُس وقت اسکول مکمل طور پر ڈیجیٹل ہو جائیں گے۔ بچوں کی پیٹھ پر بھاری بیگ نہیں ہوں گے، بلکہ ان کے ہاتھوں میں ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ ہوں گے، جن میں ان کی تمام مطالعاتی کتابیں محفوظ ہوں گی، اور اس وقت بلیک بورڈز ٹچ اسکرین بھی ہوں گے(جو کہ بہت سے سکولوں میں اب بھی استعمال ہو رہے ہیں)، تاکہ استاد کوئی بھی خاکہ یا تصویر کھینچ سکے۔ چاک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

اس دوران دنیا کی کئی ایجنسیاں دوسرے سیاروں پر ممکنہ طور پر موجود مخلوق  سے رابطے میں مصروف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 تک ہم دوسرے سیاروں اور ان  پر رہنے والی مخلوق  کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور اگر مستقبل میں جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو جائے ، اور سائنسدانوں کی پیشین گوئیوں  پر یقین کیا جائے تو پوری دنیا ختم نہیں ہو گی، کیونکہ ترقی یافتہ ملک کوشش کریں گے کہ  کسی بھی بڑی جنگ میں وہ  جنگ سے پہلے اپنی حفاظت کا انتظام کر لیں ، یوں  بچ جانے والے لوگ انسانیت کے سلسلے کو آگے بڑھا سکیں گے۔تاہم یہ صرف انسانی کوششیں ہیں، حقیقت میں کیا ہو گا، بے شک اللہ قادر مطلق ہی اس کا علم اور اختیار رکھتا ہے۔

تو آپ کا کیا خیال ہے، اپنی رائے ضرور دیں کہ سائنسدانوں کی جانب سے کی گئی پیشین گوئیاں کہاں تک  درست ثابت ہوں گی۔

8 Responses

  1. Asslamualikum,

    Good effort in unfolding the digital revolution to reach the unreached! The fast-paced technology might improve living but it has little to offer for the salvation of humans. You have wisely concluded the translation by saying “Almighty Allah has its own plans”, an eye-opener for all and sundry. GREAT!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *