جمیل احمد
زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کی جستجو میں بھی خالق کی معرفت پوشیدہ ہے!
ہم چند سوالات سے بات شروع کرتے ہیں:
سوال نمبر1: کیا زمین پر زندگی کی ابتداء کے بارے میں سائنسی طور پر کوئی ثابت شدہ اور متفقہ نقطۂ نظر موجود ہے؟
جواب: نہیں، زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا، اس کے بارے میں سائنسی طور پر کوئی واحد، عالمی سطح پر متفقہ نقطۂ نظر موجود نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے اس بارے میں کئی دلچسپ نظریات اور مفروضے پیش کیے ہیں، لیکن حقیقت میں کیا ہوا، اس پر تحقیق اور بحث جاری ہے۔
سوال نمبر2: زمین پر زندگی کی ابتداء کے بارے میں سائنسدانوں کے پیش کردہ اہم نظریات کا خلاصہ کیا ہے؟
جواب: Primordial Soup تھیوری بتاتی ہے کہ زندگی زمین کے ابتدائی سمندروں میں سادہ مالیکیولوں سے پیدا ہوئی۔ ہائیڈرو تھرمل وینٹ مفروضہ تجویز کرتا ہے کہ زندگی سمندروں کی تہہ میں بہنے والے معدنیاتی گرم پانی کے قریب شروع ہوئی۔ Panspermia نظریہ بتاتا ہے کہ زندگی کائنات میں کسی اور جگہ سے آئی ہے۔ آر این اے ورلڈ تھیوری کے مطابق آر این اے، جو جینیاتی معلومات کو ذخیرہ کرنے اور کیمیائی رد عمل کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ایک مالیکیول ہے، نے زندگی کی ابتدا میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
سوال نمبر3: مندرجہ بالا نظریات اور مفروضوں کی روشنی میں کیا سائنسدان قطعی طور پر جانتے ہیں کہ پہلے پہل وجود میں آنے والے جاندار خلیات کی کیمیائی ساخت کیا تھی؟
جواب: نہیں، سائنس دانوں کو قدیم جاندار خلیوں کی صحیح ساخت کی حتمی سمجھ نہیں ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں کے نظریات ان ممکنہ حالات اور تعاملات کے بارے میں کچھ اندازے لگاتے ہیں جو زندگی کے ظہور کا باعث بنے ہوں گے، تاہم وہ ابتدائی خلیوں کی ٹھیک ٹھیک مالیکیولی ساخت کے بارے میں مخصوص تفصیلات پیش نہیں کرتے۔
سوال نمبر4: ماضی اور حال کے حاصل کردہ کُل علم اور تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے کیا سائنسدان مصنوعی طور پر ایسا خلیہ بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں جو ایک قدرتی جاندار خلیے جیسے افعال سرانجام دے سکے؟
جواب: نہیں! اگرچہ سائنس دانوں نے حیاتیاتی نظام کو سمجھنے اور ان میں رد وبدل کرنے میں اہم پیشرفت کی ہے، تاہم ایک زندہ خلیہ بنانا جو قدرتی خلیے کے تمام افعال کو مکمل طور پر انجام دے سکے ایک پیچیدہ اور چیلنجنگ کوشش بنی ہوئی ہے۔
سوال نمبر5: کسی ایسے جاندار کا نام بتائیں جو سائنسدانوں نے مصنوعی طور پر تیار کیا ہو اور وہ قدرتی طور پر پائے جانے والے کسی جاندار جیسے افعال سر انجام دیتا ہو۔
جواب: ابھی تک سائنسدان مصنوعی طور پر کوئی ایسا جاندار تخلیق کرنے سے قاصر ہیں جو کسی قدرتی جاندار جیسے تمام افعال سر انجام دیتا ہو۔ اگرچہ محققین نے مصنوعی خلیات اور حیاتیاتی نظام بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ ابھی تک قدرتی زندگی کی پیچیدگی اور خود کار نظام کو مکمل طور پر نقل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: زندگی کا مقصد کیسے تلاش کریں؟
دوسری طرف دیکھیے! قرآن نے تقریباً ساڑھے چودہ صدیاں قبل کس قطعیت اور جامعیت کے ساتھ کائنات، انسان اور جانداروں کی تخلیق کی بات کی ہے، جب کہ موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے باوجود انسان ابھی تک ایک سادہ سے خلیے جیسا جاندار بھی نہیں بنا سکا، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ کا علم لامحدود ہے اور وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ قرآن مجید میں مختلف آیات میں اللہ کی قدرت اوراس کے خالق ہونے کی عظمت کا ذکر ملتا ہے۔چند آیات ملاحظہ ہوں:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
ترجمہ: اور کیا جن لوگوں نے کفر کیا یہ نہیں دیکھا کہ بے شک سارے آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں پھاڑ کر الگ کیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی، تو کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے؟ (الانبیاء:30)
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
ترجمہ: اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔ (الحجر:26)
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ
ترجمہ: اور جانّ (یعنی جنوں) کو اس سے پہلے لوکی آگ سے پیدا کیا۔ (الحجر:27)
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں ایک بشر ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے ہوگی۔ (الحجر:28)
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
ترجمہ: تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ۔ (الحجر:29)
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ
ترجمہ: پھر ہم نے اس قطرے کو ایک جما ہوا خون بنایا، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو ایک بوٹی بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو کچھ گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کردیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو سب سے اچھا بنانے والا ہے۔ (المومنون:14)
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا (التین:4)
وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ: اور اللہ نے ہر چلنے والا (جاندار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، یقیناً اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ (النور:45)
خلاصۂ کلام یہ کہ بلاشبہ دین ہمیں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے تحقیق و جستجو کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ ہم انسانیت کو ترقی کی بلندیوں پر لے جائیں۔ تاہم ہمیں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ترقی کی اصل معراج اور علم اور تحقیق کا اعلیٰ مقصد اپنے خالق کی عظمت کو پہچاننا اور اس کی راہ پر چلنا ہے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response