جمیل احمد
آرام دہ ہائی سپیڈ ٹرین کے ذریعے ہم ساڑھے پانچ گھنٹے میں قونیہ پہنچ گئے۔ ہمارے گروپ میں ایک فیملی کے ساتھ معصوم سی ننھی پری سفر کر رہی تھی۔ سب نے اس کا نام پرنسس رکھ دیا تھا۔ پرنسس کی معصومیت بھری باتیں سفر کی ساری تکان دور کر دیتیں۔ پورے سفر میں دونوں جانب تا حد نظر کھیت نظر آتے رہے۔ یوں سمجھ لیجیے ایک بہت ہی عظیم پینٹر نے ایک طاقت ور برش کی مدد سے ہرے، گہرے سبز، بھورے، مٹیالے اور نیلے رنگوں کو ملا کر انتہائی مہارت کے ساتھ حد نگاہ تک پھیلے کینوس پر ایک شاہکار تخلیق کر دیا تھا۔ ایسا شاہکار جس کی تخلیق کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ کوئی جگہ ایسی نظر نہ آئی جہاں کچھ نہ کچھ کاشت نہ کیا گیا ہو۔ کاشت کاری کے جدید طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ قونیہ اگرچہ پانچ ہزار سال قدیم شہر ہے، تاہم اب وہاں جدید طرز تعمیر اور بہترین شہری منصوبہ بندی کا کمال نظر آتا ہے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی کشادگی اور سکون کا احساس دل میں سرایت کر جاتا ہے۔
قونیہ رقبے کے لحاظ سے ترکی کا سب سے بڑا جبکہ اکیس لاکھ آبادی کے ساتھ ساتواں بڑا شہر ہے۔ اسے ترکی کے اہم صنعتی شہر کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن سیاحوں کی اکثریت کو مولانا رومی کی خوشبو یہاں کھینچ لاتی ہے۔ وہی مولانا جلال الدین رومی جنہیں علامہ اقبال اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں۔ آپ تیرھویں صدی عیسوی کے عظیم شاعر، عالم، فلسفی اور فقیہہ تھے، لیکن دنیا آپ کو عظیم فلسفی شاعر کے طور پر زیادہ جانتی ہے۔ ایک روایت میں آپ کا اصل نام محمد ابن محمد ابنِ حسین حسینی اور لقب جلال الدین ملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی بہاؤ الدین الصدیقی بھی بڑے استاد اور عالم گزرے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب دس واسطوں سے خلیفہ اسلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ مولانا رومی 1207 عیسوی میں بلخ یعنی موجودہ افغانستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کو بہت سے دینی و دنیاوی علوم پر دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ زمانہ طالب علمی ہی سے پیچیدہ مسائل کے حل کی خاطر علماء آپ سے رجوع کرنے لگے تھے۔ ان کا خاندان ہجرت کرتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے ہو کر دمشق پہنچا اور بعد ازاں اس وقت کے سلجوقی حکمران علاؤ الدین کی درخواست پر 1228 عیسوی میں قونیہ آ کر آباد ہو گیا۔
رومی کون تھے اور ان کا مقام کیا ہے، اس کا احاطہ کرنا ان سطور میں تو ممکن نہیں، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سات صدیوں کی دوری کے باوجود ان کا پیغام عشق و اخلاص اب بھی ہمیں مسحور کر دیتا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کم و بیش ساری دنیا اب تک رومی کے سحر میں گرفتار ہے۔ رومی، ایران میں پیدا ہونے والے شمس تبریز کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ شمس تبریز کا شجرہ خلیفہ اسلام حضرت علی رضی اللّہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ کہتے ہیں شمس تبریز نے دعا کی تھی کہ مجھے وہ شخص ملے جو میری صحبت کا متحمل ہو۔ ان کی دعا قبول ہو گئی اور قونیہ میں ان کی ملاقات رومی سے ہو گئی۔ رومی چالیس دن تک شمس تبریز کی خصوصی شاگردی میں رہے اور اسی دوران میں ان کے من کی دنیا بدل گئی۔ شمس تبریز کے منتخب اقوال “محبت کے چالیس اصول” آج بھی علمی حلقوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔
ہم مولانا روم کے مزار پر حاضر ہوئے اور دعا کی۔ مزار کے احاطے میں کچھ اور قبریں بھی ہیں اور یہ اعزاز رومی کے روحانی شاگرد “اقبال لاہوری” کو حاصل ہے کہ ان کی علامتی قبر یہاں بنائی گئی ہے۔ یہ ترکی میں کسی غیر ملکی شخصیت کی واحد علامتی قبر ہے۔ ہم نے شمس تبریز کے مزار پر بھی حاضری دی۔ مولانا رومی کا انتقال 17 دسمبر 1273 عیسوی کو قونیہ میں ہوا۔ ان کا یوم وفات ہر سال “شب عروس” کے نام سے منایا جاتا ہے جو ساری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔
قونیہ سے کیپا ڈوشیا کا سفر بھی یادگار رہا۔ آرام دہ بس کے ذریعے ساڑھے چار گھنٹے میں کیپا ڈوشیا پہنچ گئے۔ راستے میں قدرت کی وہی خوب صورت کاری گری۔ بس میں جاوید چوہدری کی ہلکی پھلکی گفتگو اور پیشہ ورانہ ٹپس سے سب ہی مستفید ہوتے رہے۔ دوسرے ساتھیوں نے بھی خوب طبع آزمائی کی۔ جاوید چوہدری کی ریسرچ کے مطابق اگر آپ کسی شعبے میں ناقابل شکست بننا چاہتے ہیں تو اس میں دس ہزار گھنٹے جم کر کام کریں۔ کیلکولیشن کی تو پتہ چلا کہ یہ آٹھ گھنٹے روزانہ کے حساب سے 1250 کام کے دن یعنی مسلسل ساڑھے تین سال بنتے ہیں۔ مجھے یہ بات پرفیکٹ لگی۔ اگر آپ اللّہ پر بھروسہ کر لیں اور کسی پیشے کو چار سے پانچ سال اپنی ساری توانائیاں دے دیں تو آپ کو درجہ کمال تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیپا ڈوشیا قدرت کی حیران کن انجینئرنگ کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ مجھے نہیں معلوم دنیا سات عجوبوں پر کیوں ٹھہر گئی ہے۔ آخر آٹھواں، نواں اور دسواں عجوبہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیپا ڈوشیا انہی عجائبات میں سے ایک ہے۔ یہاں پانچ سو قبل مسیح سے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ کروڑوں سال پہلے یہاں آتش فشانی کا عمل شروع ہوا۔ پھر لاکھوں سال کی شکست و ریخت کے نتیجے میں کھمبیوں کی شکل کی چٹانیں وجود میں آ گئیں جن میں سے بعض ایک سو تیس فٹ تک بلند ہیں۔ ان میں لوگ غار بنا کر رہنے لگے۔
گوریمے کے علاقے میں یہ آثار بہت نمایاں ہیں۔ ہمارے ہوٹل کے آدھے کمرے غاروں میں بنے ہوئے تھے۔ ہم ان عجیب و غریب ستونوں کی وادی “چمنی ویلی” میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے ہم ہالی وڈ کی کسی پر اسرار فلم کے سین کا حصہ ہیں۔ طلسماتی ماحول یا کوئی جناتی بستی۔ تصور کیجیے، آپ خود کو کروڑوں سال قدیم وادی میں قدرت کے تراشے ہوئے نا مانوس سے ستونوں اور غاروں کے درمیان پائیں تو کیسا محسوس کریں گے۔ کیپا ڈوشیا کے علاقے میں نیچے کی زمین کھوکھلی ہو گئی تھی۔ زیر زمین غار بن چکے تھے۔ مسیحیوں پر مشکل وقت آیا تو وہ فلسطین اور شام سے ہجرت کر کے ان غاروں میں آباد ہونے لگے۔ انہوں نے زیر زمین غاروں کو مزید وسعت دی اور ان میں شہر آباد کرنا شروع کر دیے۔ ان شہروں میں چرچ، رہائشی کمرے، ریستوران، غرض ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی مسیحی کمیونٹی یہیں تشکیل پائی جس نے بعد ازاں آرمینیا میں جا کر اولین مسیحی ریاست کی بنیاد ڈالی۔ ہمیں غاروں کے سب سے بڑے شہر ڈیرن کویو میں جانے کا موقع ملا۔ اس کثیر المنزلہ زیر زمین شہر کی گہرائی دو سو فٹ ہے، اور اس میں بیس ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش تھی۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے بالائی منزل میں داخل ہوئے۔ غار کا اکثر حصہ اس قدر تنگ تھا کہ تقریباً سارا وقت ہم رکوع کی حالت میں چلتے رہے۔
کیپا ڈوشیا کی صبح کا دل فریب منظر ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ گرم ہوا کے رنگ برنگے دیو ہیکل غبارے علی الصبح سیاحوں کو لے کر کیپا ڈوشیا کی فضائی سیر کرواتے ہیں۔ آسمان پر دور تک غبارے سیاحوں سے بھری ٹوکریاں اٹھائے پرواز کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لائف ٹائم تجربے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر سال لاکھوں سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ کیپا ڈوشیا سے استنبول کی فلائٹ لی۔ ایک بار پھر کچھ وقت استنبول میں گزارا۔ اگلی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچے تو ساتھی ترکی کے سفر کی یادیں دل میں بسائے ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔ ایک ہفتہ قبل جو لوگ ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے، اب وہ دوستی کے رشتے میں بندھ جکے تھے۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ جاوید چوہدری کے ساتھ ترکی کے سفر سے ترکش ڈیلائٹ کے علاوہ کیا لے کر آئے تو میرا سیدھا سادہ جواب ہو گا کہ پازیٹیو ایٹی چیوڈ پر بڑھتا ہوا یقین اور بہت سے نئے دوست!
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
4 Responses