Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ترکیہ کا سفر ... نیلی مسجد، شہزادوں کے جزیرے اور افکار اردو بلاگ ۔۔۔ ایوب سلطان

ترکیہ کا سفر 3: نیلی مسجد، شہزادوں کے جزیرے اور ایوب سلطان

جمیل احمد

نیلی مسجد کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ مؤذن کی آواز میں گھلی شیرینی ہم بھی محسوس کر رہے تھے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ نماز جمعہ کا وقت ہو گیا ہے۔ ہم نے تاریخی نیلی مسجد کا رخ کر لیا۔ مسجد کی تعمیر سلطان احمد اول کے دور میں 1616 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ وجہ تسمیہ اس مسجد کی یہ ہے کہ ہال کی اندرونی دیواریں زیادہ تر نیلے رنگ کی ٹائلوں سے مزین ہیں۔ رات کے وقت مسجد کے پانچ مرکزی اور آٹھ ذیلی گنبدوں کے علاوہ چھے میناروں سے روشنی پڑتی ہے تو مسجد نیلے رنگ میں نہا جاتی ہے۔ پر شکوہ مسجد کی تاریخ سے عقیدت کا احساس تو تھا ہی، امام صاحب کی نہایت خوش الحانی سے قرات دل میں اتر گئی۔ سیاح جوق در جوق مسجد کو دیکھنے آتے ہیں، لیکن نمازوں کے اوقات میں سیاحوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔

نماز جمعہ ادا کی، لنچ کیا اور اور قریب ہی واقع گرینڈ بازار کا رخ کیا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ استنبول آئیں اور گرینڈ بازار نہ دیکھیں۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم ترین کورڈ مارکیٹس میں ہوتا ہے۔ ایک مرکزی بازار سمیت 61 گلیوں اور چار ہزار سے زائد دکانوں پر مشتمل اس بازار میں روزانہ ڈھائی سے چار لاکھ سیاح آتے ہیں۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے دو سال بعد 1455 عیسوی میں گرینڈ بازار کی تعمیر شروع کروا دی تھی جو 1460 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 میں استنبول کا گرینڈ بازار نو کروڑ بارہ لاکھ سے زائد سیاحوں کی آمد کے ساتھ دنیا کا سب زیادہ دیکھا جانے والا سیاحتی مقام تھا۔ دکانیں اندرون شہر کے کسی بھی پاکستانی بازار جیسی لگ رہی تھیں۔ سیلز مین بھی اسی طرح آگے بڑھ بڑھ کر گاہکوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پاکستانی تو دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی بعض سیلز مین ایک مسکراہٹ کے ساتھ پاکستان زندہ باد کہہ دیتے۔ بارگیننگ یہاں بھی خوب ہوتی ہے۔ ہمیں “من ترکی نمی دانم” کی ہچکچاہٹ درپیش تھی، البتہ ہمارے چند ساتھی تبرک کے طور پر کچھ خریداری کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

شہزادوں کے جزیرے استنبول کے مضافات میں ایک اور دیکھنے کی جگہ ہیں۔ یہ بحیرہ مرمرہ کے اندر چار نسبتاً بڑے اور پانچ چھوٹے خوب صورت جزیروں کا مجموعہ ہے۔ نام سے ہمیں لگا کہ شہزادے شاید تفریح کی غرض سے یہاں آتے رہے ہوں گے، لیکن معاملہ الٹ نکلا۔ معلوم ہوا کہ بازنطینی دور حکومت میں شاہی خاندان کے افراد کو جلا وطن کرنا ہوتا تو انہیں یہاں بھیجا جاتا۔ عثمانی دور میں بھی ان جزیروں کو کھلی جیل کے طور پر برقرار رکھا گیا۔ عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد عثمانی سلاطین اور ان کے خاندانوں نے یہیں پناہ لی۔ تاہم انیسویں صدی عیسوی میں استنبول کے مال دار افراد نے ان جزیروں کو تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ ہم نے فیری کے ٹکٹ لیے اور سب سے بڑے جزیرے “بیوک اڈا” یعنی بگ آئی لینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ خوب صورت اور آرام دہ فیری میں مقامی لوگوں کے ساتھ غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں سوار تھے۔

ہم نے نشستیں سنبھالیں تو نیلے سمندر پر تیرتی ہوئی فیری کے آس پاس پھسلتے ہوئے مناظر ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے گئے۔ پیچھے استنبول کا دھندلاتا ہوا منظر، انجن کے پریشر سے دور تک بنتی ہوئی پانی کی لکیر، مرمرہ کے نیلگوں پانی میں کہیں کہیں سر اٹھائے ہوئے جزیرے اور فیری کے ساتھ ساتھ اڑتے ہوئے بگلے۔ ان مناظر نے سفر کو یادگار بنا دیا۔ سفید بگلے فیری کے اطراف میں منڈلاتے رہتے ہیں۔ سیاح کھانے کی چیزیں ان کی طرف بڑھاتے تو خوب صورت پرندے ہاتھ سے لقمہ اچک لیتے۔ جزیروں کے قریب سے گزرتی ہوئی فیری بیوک اڈا کے ڈیک پر لنگر انداز ہوئی تو ہم نے جزیرے کی سیر کا پروگرام بنایا۔ چند قدم چلے تو احساس ہوا کہ یہاں کی فضا میں عجیب سا ٹھہراؤ ہے۔ اس جزیرے کا کل رقبہ ساڑھے پانچ مربع کلومیٹر ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں کوئی مشینی سواری یعنی گاڑی، کار یا موٹر سائیکل نہیں چلتی۔ شاید ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس، فائر بریگیڈ یا پولیس کی گاڑیاں موجود ہوں۔ سیاح سواری کے لیے بگھی یا بائیسکل استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک بگھی پر چار افراد سوار ہو سکتے ہیں۔ ہم دو فیملیز نے بگھی لی اور سیر کو نکل گئے۔ چاروں طرف صنوبر کے درخت، ان کے بیچوں بیچ لکڑی کے قدیم لیکن خوب صورت گھر جن کے ساتھ نئے گھروں کا اضافہ بھی ہو گیا ہے اور بلندی سے سمندر کا نظارہ ماحول کو مزید دل کش بنا رہے تھے۔ یہاں صرف گھوڑے کے سموں کی ٹک ٹک، پرندوں کی چہچہاہٹ یا ہوا کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔

ہم نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے مشہور ترکی ڈراموں میں سے ایک “فاطمہ گل” کا ذکر کیا تو کوچوان نے چونک کر کچھ کہا جسے ہم سمجھ نہ سکے۔ شاید وہ فاطمہ گل کے بارے میں ہمیں کچھ بتانا چاہتا تھا۔ لنچ کا اہتمام بیوک اڈا کے ایک عوامی ریستوران میں تھا۔

مزے دار کھانا کھانے کے بعد واپس استنبول آ پہنچے۔ دن ابھی باقی تھا، سو استنبول کے ایک اور حیرت کدے یعنی “ڈوبے ہوئے محل” کی طرف چل پڑے۔ عمارت کیا ہے، زیر زمین 453 فٹ لمبا اور 213 فٹ چوڑا وسیع و عریض ہال ہے جس کی چھت تیس تیس فٹ بلند 336 ستونوں پر قائم ہے۔ کہتے ہیں اکثر ستون آثار قدیمہ اور کھنڈرات کو یہاں لا کر ان کے میٹیریل سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ عمارت چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی حکمران جسٹینین نے محلات کے لیے پانی ذخیرہ اور فلٹر کرنے کی غرض سے تعمیر کروائی تھی۔ عثمانی دور میں اور اس کے بعد بھی اس کی تعمیر نو اور مرمت کا کام ہوتا رہا۔ باون سیڑھیاں اتر کر ہال میں داخل ہوئے تو تاریکی میں مدھم روشنیاں ماحول کو ہیبت زدہ سا کر رہی تھیں۔ ایک کونے میں ستون کے پائے پر میڈوسا کے ترچھے اور الٹے سر کے نقوش سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ یونانی دیو مالائی کہانیوں میں میڈوسا کو ایک عجیب الخلقت عورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے سر میں بالوں کی بجائے زہریلے سانپ رہتے تھے۔ جو بھی اس کی طرف دیکھتا پتھر کا ہو جاتا۔

خیر واپس ہوئے۔ طے ہوا کہ ڈنر کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کے مرقد پر حاضری دیں گے۔ یہ وہی جلیل القدر صحابی رسول صلی اللّہ علیہ وسلم ہیں جنہیں مدینہ میں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللّہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کا نام خالد بن زید اور کنیت ابو ایوب تھی۔ آپ کا ایک اور اعزاز یہ ہے کہ آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے، حتی کہ امیر معاویہ کے زمانے میں جب قسطنطنیہ کی طرف لشکر بھیجا گیا تو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اس میں شامل ہو گئے۔ راستے میں آپ بیمار ہو گئے تو لشکر کے سپہ سالار نے پوچھا، “کوئی خواہش ہو تو بیان فرمائیں۔” آپ نے فرمایا، “لشکر اسلام کو میرا سلام کہنا اور مجاہدین سے کہنا کہ ابو ایوب کی تمہیں وصیت ہے کہ دشمن کی سر زمین میں پیش قدمی کرتے ہوئے آخری حد تک پہنچنا اور میری لاش کو اپنے ساتھ اٹھائے رکھنا اور مجھے قسطنطنیہ کی دیوار کے ساتھ دفن کرنا۔” ان کی وصیت کے مطابق دیوار قسطنطنیہ کے ساتھ ان کی قبر کھودی گئی اور وہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کی پیارے آقا صلی اللّہ علیہ وسلم سے محبت، ان کی میزبانی کے واقعات اور حالات زندگی پڑھنے کے لائق ہیں۔ آپ کی قبر کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے جس کا شمار ترکی کی قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ ترکی کے لوگ انہیں ایوب سلطان کے نام سے جانتے ہیں۔ روزانہ بڑی تعداد میں لوگ یہاں حاضری دیتے ہیں۔ ہم نے صحابی رسول صلی اللّہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا کی اور نماز عشاء باجماعت ادا کی۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہم پر نم آنکھوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ واپس ہوئے۔ ہماری اگلی منزل قونیہ تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email