Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

افکار اردو بلاگ ۔۔۔ ترکیہ کا سفر 2 ... توپ قاپی اور آیا صوفیہ

ترکیہ کا سفر 2: توپ قاپی اور آیا صوفیہ

جمیل احمد

ترکی عجیب ملک ہے، ہماری سوچ سے ذرا ہٹ کے، اس لیے کہ اس کے پاس استنبول ہے۔ فرانس کے مشہور شہنشاہ اور سپہ سالار نپولین بونا پارٹ سے ایک قول منسوب ہے کہ “ساری دنیا اگر ایک ریاست ہوتی تو استنبول اس کا دارلخلافہ ہوتا۔” اور یہ بات استنبول دیکھنے کے بعد ہمیں سچ لگنے لگی۔ شہر کی فضا، اس کے مناظر اور لینڈ سکیپ نے ہمیں مسحور کر کے رکھ دیا۔ پہلی عجیب بات ہمیں یہ لگی کہ بہت چھان مارا لیکن وہاں ہمیں کوئی لاغر آدمی نظر نہ آیا۔ ابن انشاء کو چین کے سفر میں جب کوئی لاغر آدمی نظر نہ آیا تو بقول ان کے، ایک امریکی ساتھی نے یہ توجیہ کی کہ جب کوئی غیر ملکی آتا ہے تو ڈھنڈورا پٹ جاتا ہے کہ لاغر لوگ اپنے گھروں میں بند ہو جائیں اور اندر سے کنڈیاں چڑھا لیں تاکہ غیر ملکی لوگ متاثر ہو جائیں۔ استنبول کے بارے میں ہمیں بھی یہی شک ہونے لگا تھا، لیکن بھلا ہو کچھ دوستوں کا کہ انہوں نے بر وقت ہماری پریشانی دور کر دی۔ ہمیں یقین کرنا پڑا کہ گھروں میں بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی طرح کے لوگ ہیں جیسے باہر نظر آتے ہیں۔ خوب صورت، صحت مند، باوقار اور چست۔

استنبول ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے، لیکن مجال ہے جو ٹریفک کی روانی میں ہمیں کوئی بے قاعدگی نظر آئی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ کہیں بھی کوئی اہلکار ٹریفک کنٹرول کرتا ہوا نظر نہیں آیا۔ سب کچھ خود کار انداز میں ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ سڑکیں، گلیاں، عمارتیں اور گاڑیاں، صاف ستھری نظر آئیں۔ صفائی ستھرائی ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ترکی کے بالغ افراد میں شرح خواندگی تقریباً 96 فی صد ہے۔ ان کی تیز ترین ترقی کی بڑی وجہ بہترین شرحِ خواندگی بھی ہے۔ جاوید چوہدری کے ساتھ سفر ایک انٹر ایکٹو ورکشاپ کی طرح ہوتا ہے۔ انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ اس ٹور کی تھیم “ایٹی چیوڈ” ہو گی۔ سو وقفے وقفے سے وہ ایٹی چیوڈ، کامیابی اور ناکامی کے بارے میں قیمتی ٹپس شئیر کرتے جا رہے تھے۔ سوال و جواب کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔

دوسرے دن سب سے پہلے توپ قاپی جانے کا پروگرام تھا۔ توپ قاپی محل کی تعمیر کا آغاز 1459 عیسوی میں سلطان محمد فاتح کے حکم پر ہوا۔ عمارت کو دیکھ کر عثمانی سلاطین کے ذوق تعمیر کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ محل میں چار مرکزی احاطے اور بہت سی دوسری عمارات ہیں۔اس دور میں یہاں چار ہزار افراد رہائش پذیر تھے۔ کہتے ہیں کہ سلطان کا وزیر اعظم نماز فجر آیا صوفیہ میں ادا کرنے کے بعد محل کے دیوان خاص میں سرکردہ ملازمین سے ملاقات کرتا ور ضروری فیصلے کرتا۔ اس دوران میں سلطان ایک جالی دار کھڑکی سے کارروائی دیکھتا اور جہاں ضرورت ہوتی فیصلہ سنا دیتا۔ آج کل یہ عجائب گھر کی حیثیت سے سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ اگرچہ عجائب گھر میں اس دور کے ظروف، ملبوسات، ہتھیار، فن پارے، زیورات اور بہت سی اشیاء نمائش کے لیے موجود ہیں، لیکن ہماری توجہ اس حصے نے کھینچ لی جہاں کئی مقدس نوادرات رکھے گئے ہیں۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے برتن، حضرت یوسف علیہ السلام کے عمامہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا اور حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کا نشان، ان کے عمامہ، مہر، تلوار اور داڑھی مبارک کے بال کی زیارت کی تو بے اختیار انبیاء علیہم السلام پر سلام اور درود پاک دل و زباں سے جاری ہو گیا۔ اس کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللّہ تعالیٰ عنہا کا کرتا، حضرت امام حسین رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کا جبہ، خلفاء راشدین کی تلواروں اور قرآن مجید کے قدیم نسخوں کی زیارت بھی کی۔ ہمیں لگا ترکی کے ٹور کا حاصل یہی زیارات تھیں۔ دل میں اطمینان و سکون کی وہ کیفیت تھی جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس حصے میں ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت جاری رہتی ہے۔ کہتے ہیں قاری بدلتے رہتے ہیں، لیکن تلاوت قرآن کا یہ سلسلہ کئی سو سال سے دن رات جاری ہے۔

قسطنطنیہ یعنی آج کا استنبول وہ شہر ہے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ “سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا، ان کی مغفرت ہو گی۔” اس شہر کا اصل نام بازنطین تھا، جو 330 عیسوی میں اس وقت کے شہنشاہ قسطنطین نے بدل کر اپنے نام پر قسطنطنیہ رکھ لیا۔ 1453 عیسوی میں سلطان محمد فاتح نے شہر کو فتح کرنے کے بعد اس کا نام “اسلام بول” رکھا جو آہستہ آہستہ استنبول ہو گیا۔ فتح قسطنطنیہ کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم کی بشارت کو پورا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے کوشش کی، لشکر بھیجے، چڑھائی کی، لیکن اس شہر کو فتح نہ کر سکے۔ بالآخر یہ اعزاز خلافت عثمانیہ کے اکیس سالہ حکمران سلطان محمد فاتح ثانی کو حاصل ہوا۔ انہوں نے شہر کے محاصرے اور لڑائی کے لیے انوکھی حکمت عملی تیار کی۔

مورخین کہتے ہیں کہ قسطنطنیہ کے قلعے پر حملہ کرنے اور اس کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے لیے جدید ترین توپ کا استعمال پہلی بار سلطان محمد فاتح نے کیا۔ اس کے علاوہ قلعے کی فصیل کی اونچائی کے برابر لکڑی کے مینار تیار کروائے گئے جن کے نیچے پہیے نصب تھے۔ ان میناروں پر سپاہیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور ان کے ساتھ سیڑھیاں بھی لگائی گئی تھیں تاکہ بلندی سے ہو کر قلعے کی فصیلیں سر کی جا سکیں۔ شہر تین اطراف سے خشکی سے گھرا ہوا تھا۔ ایک جانب خلیج ہے جسے “گولڈن ہارن” کا نام دیا جاتا ہے۔ شہر کی افواج خشکی کی طرف سے ہونے والے تمام حملے پسپا کر رہی تھیں۔ خلیج کے اندر بہت بڑی فولادی زنجیر نصب تھی تاکہ حملہ آوروں کے جہاز اس طرف سے بھی داخل نہ ہو سکیں۔ پھر شہر کی فوج ایسے گولے برسا رہی تھیں جو پانی میں گر کر آگ لگا دیتے تھے۔ ایسے میں سلطان محمد فاتح نے وہ محیر العقول کارنامہ سر انجام دیا جسے دنیا کی جنگی تاریخ میں آج تک یاد رکھا جاتا ہے۔

عثمانی فوج نے لکڑی کے لمبے لمبے تختے تیار کیے، ان پر چربی کی تہہ چڑھائی اور راتوں رات خشکی کے راستے ان تختوں پر کشتیاں گھسیٹ کر شہر کے عین سامنے پانی میں اتار دیں۔ شہریوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ بہر حال ایک طویل محاصرے اور لڑائی کے بعد عثمانی فوج نے شہر فتح کر لیا۔ کہتے ہیں سلطان محمد سفید گھوڑے پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا صوفیہ پہنچے، صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ سات سو سال کی جد و جہد کے بعد نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم کی بشارت پوری کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

آیا صوفیہ، جسے حاجیہ صوفیہ کی طرح بھی لکھا جاتا ہے، دراصل ایک چرچ تھا۔ اس کی تعمیر پہلی بار چوتھی صدی عیسوی میں ہوئی، لیکن یہ کسی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ اسے دوسری بار تعمیر کیا گیا لیکن ایک بار پھر فسادات میں تباہی کی نذر ہو گیا۔ تیسری مرتبہ اس کی تعمیر 537 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ یہ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہا۔ 1453 عیسوی میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اسے مسجد بنا دیا گیا اور 1935 میں اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بلا شبہ دنیا کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہم ٹکٹ لے کر عمارت میں داخل ہوئے۔ آیا صوفیہ کو آپ اردو میں “مقدس حکمت” کہہ سکتے ہیں۔ عمارت کی شان و شوکت دیکھ کر ہم حیران تھے۔ 180 فٹ بلند و بالا عمارت، اس میں ایک سو ایک فٹ قطر کے مرکزی گنبد اور اس کے بغلی گنبدوں کے نیچے کوئی ستون نہیں ہے۔ یہ عمارت اس وقت کے فن تعمیر کے عروج کی عمدہ مثال ہے۔ عمارت کے اندر اللّہ، محمد صلی اللّہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ناموں کے بڑے بڑے فریم نصب ہیں۔ چرچ کی علامات بھی موجود ہیں بلکہ بڑی احتیاط سے چرچ کے قدیم نقوش کو دوبارہ نمایاں کرنے کا کام جاری ہے۔ یہ عمارت نجانے کتنی نسلوں کی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ باہر نکلے، سامنے والے کیفے ٹیریا سے آئس کریم لی اور آگے چل پڑے۔ استنبول میں دیکھنے کو ابھی بہت کچھ باقی تھا۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email