جمیل احمد
“لیڈیز، جنٹلمن اینڈ چلڈرن! ترکش ائیرلائن کی پرواز پر خوش آمدید۔” لیڈیز اینڈ جنٹلمن کے ساتھ چلڈرن کا اضافہ دل کو بھلا لگا کہ چلو ائر لائن کی انتظامیہ نے اب بچوں کو بھی مخاطب کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ معروف صحافی، کالم نگار اور مصنف جناب جاوید چوہدری صاحب کے ساتھ ہمارا دوسرا سفر تھا۔ اس سے قبل ہم ان کے ساتھ ازبکستان کا ٹور کر چکے تھے۔ جاوید چوہدری کی شخصیت کا یہ رخ مجھے بہت پسند ہے کہ وہ مثبت سوچتے ہیں اور مثبت بولتے ہیں۔ خود خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشکل حالات میں بھی امید اور یقین کی بات کرتے ہیں۔ راستہ دکھاتے ہیں۔ دوسروں کی انتہائی سخت باتوں پر بھی صبر، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزر کر جاتے ہیں۔ شاید یہی وہ خوبیاں ہیں جو ہمیں دوبارہ ترکی کے سفر کے لیے ان کے ساتھ کھینچ لائیں۔
ایک تو عرصہ سے ترکی دیکھنے کی آرزو، دوسرے جاوید چوہدری کی معیت نے شوق سفر کو دو آتشہ کر دیا تھا۔ اسلام آباد ائر پورٹ ہی سے ساتھیوں سے رسمی سلام دعا کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو ٹور کے اختتام تک خوب بے تکلفی میں بدل گیا۔ ادھیڑ عمر، نوجوان، فیملیز، بچے، پھر پاکستان کے تقریباً ہر علاقے بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے نمائندگی، غرض مختلف طبقہ ہائے زندگی کے باوقار افراد پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ تھا۔ شمائل جاوید چوہدری اور ان کی ٹیم کافی عرصہ سے ٹور کے انتظامات میں مصروف تھی۔ انہوں نے سب کا بہت خیال رکھا اور بہترین انتظامات پر خوب داد و تحسین سمیٹی۔
چھے گھنٹے کی براہ راست پرواز کے بعد صبح سوا دس بجے ہم استنبول ائر پورٹ پر لینڈ کر گئے۔ یہ نو تعمیر شدہ ائر پورٹ انجینئرنگ کا شاہکار ہے۔ اس کا سنگ بنیاد 7 جون 2014 کو رکھا گیا تھا جبکہ باقاعدہ افتتاح 29 اکتوبر 2018 کو ہوا۔ اس سے قبل استنبول کا اتا ترک ائر پورٹ استعمال کیا جاتا تھا جو اب پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ نیا ائر پورٹ اب بھی تکمیل و توسیع کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ تعمیر کی منصوبہ بندی کے وقت یہ خیال کیا گیا تھا کہ تکمیل کے بعد یہ دنیا کا سب سے بڑا ائر پورٹ ہو گا جس پر اندازاً سالانہ بیس کروڑ مسافروں کی آمد و رفت کی گنجائش ہوگی۔ اس سے قبل اتا ترک ائر پورٹ کو بھی یورپ کے پانچ مصروف ترین ائر پورٹس میں شمار کیا جاتا تھا۔
آٹھ کروڑ دس لاکھ نفوس پر مشتمل ملک ترکی عظیم وژنری لیڈر رجب طیب اردگان کی قیادت میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ ترکی نے محض 2018 میں دنیا کو 168 بلین ڈالر کی اشیاء برآمد کیں، جب کہ پاکستان کے 2019 میں پیش کیے گئے وفاقی بجٹ کا حجم ساڑھے چوالیس بلین ڈالر ہے۔ ترکی کی بڑی برآمدات میں آٹو موبائلز، مشینری، فولاد، بجلی کا سامان، قیمتی پتھر، ٹیکسٹائل، پلاسٹک کی اشیاء اور معدنی ایندھن شامل ہیں۔ خیر! آرام دہ بسوں کے ذریعے ائر پورٹ سے استنبول شہر تک تقریباً ایک گھنٹے میں پہنچے۔ بس میں ہی ایلک نور نے ہماری گائیڈ کے طور پر اپنا تعارف کروایا۔ ایشین خد و خال کی مالک یہ نوجوان خاتون روانی سے انگریزی بول لیتی تھیں، بلکہ اردو میں بھی تھوڑی بہت نوک جھونک کر لیتی تھیں جس سے ہم کافی محظوظ ہوتے رہے۔ بہر حال رواں انگریزی اور صاف ستھری کمیونیکیشن کی وجہ سے جلد ہی انہوں نے اجنبیت کی دیواریں گرا دیں اور ہمارے ساتھ فیملی کی طرح گھل مل گئیں۔ ہاں، ایک بات کا دھچکا ہمیں ضرور لگا، جب ایک موقع پر وقت کی پابندی نہ کرنے کے حوالے سے ہم پر چند جملے کسے گئے۔ ہم سوچتے رہے، بحیثیت قوم ہمیں یہ داغ دھونے میں مزید کتنا عرصہ لگے گا؟
بھوک چمک رہی تھی۔ شہر کے ایک روایتی ریستوران میں لنچ کا اہتمام تھا۔ ہمارے سیخ کباب سے ملتے جلتے ترکش کباب، سلاد، رائتہ اور نان کے ساتھ پیش کیے گئے۔ کھانا بلا شبہ بہت لذیذ تھا۔ ہم پر طویل سفر کی تھکان طاری تھی۔ سو ہوٹل کی جانب چلے۔ ہمارا قیام ایک تاریخی فائیو سٹار ہوٹل میں تھا، جو خلافت عثمانیہ کے آخری سالوں میں سرکاری عمارت کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر سلطان عبدالحمید کی تعمیر کردہ عمارات کے درمیان 1916 سے 1926 تک جاری رہی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران میں یہ فرانسیسی افواج کے دستوں کے زیر استعمال بھی رہا۔ انہوں نے اسے “کیسیمے وکٹر” کا نام دیا تھا۔ بعد ازاں یہ عمارت استنبول سٹاک ایکسچینج کے زیرِ استعمال بھی رہی۔ جولائی 2006 میں اسے فائیو سٹار ہوٹل کے طور پر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
نور نے اعلان کیا کہ آرام کے بعد آج رات ہم کروز ڈنر کے لیے جائیں گے۔ آرام ہم نے کہاں کرنا تھا۔ کچھ دیر کھڑکی سے ہی شہر کا نظارہ کیا۔ آبنائے باسفورس میں کروز ڈنر ایک بالکل نیا اور خوبصورت تجربہ تھا۔ باسفورس تقریباً 30 کلومیٹر طویل آبی گزرگاہ ہے جو ترکی کے یورپی حصے (رومیلیا) اور ایشیائی حصے (اناطولیہ) کو جدا کرکے یورپ اور ایشیا کے درمیان سرحد قائم کرتی ہے۔ یہ بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے بھی ملاتی ہے۔ روایتی ترک رقص کے علاوہ مولانا رومی کی عقیدت سے منسوب آٹھ سو سالہ قدیم رقص درویش، متنوع ڈشز پر مشتمل لذیذ ڈنر اور سمندر کی ہلکی ہلکی لہروں کے درمیان سے استنبول کا نظارہ کیا سماں باندھ رہا تھا، الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رات گئے واپسی ہوئی اور ہوٹل میں پہنچ کر تھکے ہارے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
3 Responses