Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ترقی یافتہ پاکستان ... مگر کیسے؟ زید محسن

ترقی یافتہ پاکستان … مگر کیسے؟

اوّل انعام – مقابلۂ مضمون نویسی بسلسلہ جشن آزادی 2024

زید محسن

آج ہم میں سے تقریبا ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں کہیں نا کہیں یہ سوچ ضرور آتی ہے کہ ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟


خالقِ کائنات نے کچھ چیزیں یا اوصاف اس دنیا میں ایسے بھی رکھے ہیں جو نہ کسی قوم یا قبیلے کے ساتھ خاص ہیں اور نہ کسی ملک یا خطے کے ساتھ خاص ہیں ، بلکہ کوئی بھی قوم ان چیزوں کو کبھی بھی حاصل بھی کر سکتی ہے اور کھو بھی سکتی ہے ، البتہ حصول اور اس کے بعد کھونے کی وجوہات ضرور ہوتی ہیں ، انہیں چیزوں یا اوصاف میں سے ایک ہے:

“ترقی اور خوشحالی”

ترقی کا بھی یہی حال ہے کہ آج ایک خطے کے حصے میں ہے تو کل اس حصے سے اتنی دور ہو جائے کہ گویا کبھی چھو کر بھی نہ گزری ہو، اس کی مثال یوں لے لیں کہ ایک طرف کل تک کے بے آب و گیاہ ، تپتے ہوئے ریگستان آج فلک بوس اور پر سکون عمارتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں تو دوسری جانب کل تک سونے کی چڑیا کہلانے والی سر زمین آج ترقی اور خوشحالی سے کوسوں دور ہے ، اسی لئے اپنے ملک کے بدلتے حالات سے نا امید نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان وجوہات کو کھوجنا چاہئے جو قوموں کو پستی کی مہیب گھاٹیوں میں لے جاتی ہیں اور پھر ان کا سدِ باب کر کے ان دروازوں کا رخ کرنا چاہئے جہاں سے ترقی کی منازل کیلئے راہیں ہموار ہوتی ہیں۔

آج ہم میں سے تقریبا ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں کہیں نا کہیں یہ سوچ ضرور آتی ہے کہ بالآخر پاکستان کب ترقی کرے گا؟

کب وہ دن آئیں گے کہ اقبال کے خواب کی مکمل تعبیر اور قائد کے تصور کی جامع تصویر ہمارے سامنے آئے گی؟

وہ وطن جس کیلئے لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کی تھی وہ وطن کب ہمارے سامنے ہوگا؟

اور ہم ان تمام سوالوں کو پوچھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں کو بھول جاتے ہیں۔۔۔

 ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ خطہ ہم نے کس نام پر حاصل کیا تھا ، ہم بھول جاتے ہیں کہ اس کی پہچان ہم نے کیا رکھی تھی ، ہم بھول جاتے ہیں کہ اس کے حصول میں دی گئی قربانیوں کا فلسفہ کیا تھا ، ہم بھول جاتے ہیں کہ اٹھتے ہوئے ہاتھوں ، لرزتے ہونٹوں اور تڑپتے دلوں سے ہم نے کیا کیا وعدے کئے تھے۔۔۔۔۔اور جب ہم یہ سب بھول جاتے ہیں تو ہم سے وہ پاکستان بھی روٹھ جاتا ہے جس کی ہم امیدیں رکھتے ہیں۔۔۔جس کے ہم خواب دیکھتے ہیں اور جس کا حصول ہم نے چاہا تھا۔

کل جب ہمیں ملک کی ضرورت تھی تو ہم نے کلمہ توحید کو بنیاد بنایا ، جو جو اس کلمہ کو تسلیم کرتا ہمارا ہمنوا ہو جاتا ، ہم نے اس ملک کی بنیادوں میں روحِ اسلام پھونکی لیکن پھر خود اس کی بنیادوں پر نہ کھڑے ہو سکے اور ہم نے عمارت کو بنیادوں سے الگ کر کے تعمیر کرنے کی کوشش کی اور آج وہ عمارت انہدام اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔

کل جب ہمیں وطن کی ضرورت تھی ہم نے رنگ ونسل اور زبان وثقافت کی دیواریں توڑ پھینکیں اور یکجا ہو کر ، ایک دوسرے کا بازو اور سہارا بن کر اپنی جد وجہد کا آغاز کیا ، لیکن جوں ہی ہم خطہ ارضی کے حصول میں کامیاب ہوئے ایک بار پھر لسانیت ، قومیت اور مذہبیت کی بڑی بڑی دیواریں ہمارے درمیان حائل ہو گئیں اور ہم ایک بار پھر آپس میں دست وگریباں ہو گئے اور اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کامیابی کی دس اقسام

اور یہی دو سب سے بنیادی وجوہات ہیں کہ آج ہم ترقی یافتہ تو دور ترقی پذیر کہ دوڑ سے بھی باہر ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔۔

میں اس کا انکاری نہیں کہ ہم نے اعلی تعلیم کو چھوڑ کر بھی بڑی غلطی کی ہے ، مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کھل کر کی جاتی ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں کہیں پر بے جا تنگ نظری نے مارا ہے تو کہیں مادر پدر آزادی کا تصور ہمیں لے ڈوبا ہے ، چوری ، ڈاکے ، قتل وغارت ، بد امنی ، عدم انصاف ، غیر مستحکم نظام ، ٹیکسز اور ہزارہا قسم کی برائیاں ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس سب کی وجوہات کیا ہیں؟

اور جب ہم وجوہات کی تلاش میں نکلتے ہیں تو یہی دو باتیں سب سے واضح نظر آتی ہیں کہ ایک تو ہم نے نعرہ توحید کو صرف ایک نعرہ سمجھا اور دوسرا ہم نے انفرادیت کو اجتماعیت پر ترجیح دی۔

حالانکہ سچ یہ ہے کہ نعرہ توحید صرف ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ وہ ایک مقصد تھا ، ایک وژن تھا ، ایک سوچ تھی ، ایک فکر تھی جس کو دوسرے الفاظ میں قائد نے “اسلام اور نظامِ اسلام کے نفاذ” کا نام دیا۔

اور پھر یہی نعرہ تھا جو ہماری اجتماعیت کا سبب بنا ، جس نے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو متحد کیا ، جس نے ٹوٹے ہوئے دلوں کے درمیان محبت ڈالی۔۔۔۔اور یوں ہم اجتماعیت جیسی نعمت کو پا سکے لیکن جوں ہی ہمارے مقاصد میں سے اجتماعیت کا عنصر دور ہوا ، ہر کوئی انفرادی ترقی اور انفرادی خوشحالی کی دوڑ میں لگ گیا اور یوں ہماری نظریں بڑے بڑے مقاصد سے ہٹ کر روٹی ، کپڑا ، مکان جیسے چھوٹے اور محدود ترین مقاصد تک محدود ہو گئیں۔۔۔۔۔جس کا ذمہ دار ہم میں سے ہر وہ شخص ہے جس کو صرف اپنی ترقی کیلئے قوم کے کسی بھی نقصان کو مول لینا یا اجتماعی مفاد کو چھوڑ کر انفرادی فائدوں پر تکیہ کر لینا آسان اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔

اس لئے اگر آج بھی ہم تعمیر وترقی کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اس جد وجہد کو وہیں سے شروع کرنا ہوگا جہاں سے ہمارے اسلاف نے اس خطے کی آزادی کیلئے جد وجہد شروع کی تھی ، کیونکہ وہ تو اپنی محنتوں کا ثمرہ دیکھ چکے کہ زمین تو آزاد ہو گئی ہے لیکن ضمیر ابھی تک آزاد نہیں ہوئے اور ان کی آزادی اسی بنیاد پر ہے جس بنیاد پر یہ وطن حاصل کیا گیا۔۔۔۔نہ کہ طریقہ اغیار کو اختیار کر کے کیونکہ بقول اقبال رحمہ اللّٰہ:

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ

اور پھر جب ہم اپنی جد وجہد میں خالص ہو جائیں گے ، اس مشن کا ہدف انفرادیت کی جگہ اجتماعیت کو بنا لیں گے ، اس کی تکمیل کیلئے راہِ اغیار کو چھوڑ کر راستہ توحید اپنا لیں گے تو اس دن اس قوم کی خوشحالی کے دن شروع ہو جائیں گے ، یقیناً یہ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن اس کی منزل بڑی پر سکون ہے ، جیسے کانٹوں سے گزر کر کلیوں تک جانا ہو ، شاید اس میں ہماری ایک نسل کو اسی طرح مشقتیں جھیلنی  پڑیں جیسے اس وطن کے حصول کیلئے ہمارے اسلاف نے مشقتوں کوجھیلا تھا ، شاید اس راہ میں ویسے ہی قربانیوں کی داستان رقم کرنی پڑے جیسے ہمارے آبا و اجداد نے رقم کی تھی۔۔۔شاید اب کی بار ہمیں جان ومال کی قربانی سے زیادہ خواہشات ، لگژری لائف ، بے جا لغویات اور بے تکے شوقوں کی قربانی دینی پڑے لیکن ہر تبدیلی قربانی مانگتی ہے۔۔۔۔۔اور جب وہ ادا کی جائے تب ہی کہیں جا کر نسلوں کی افزائش ، قوموں کی ترقی اور  ملکوں کی خوشحالی لوٹ کر آتی ہے۔۔۔

اور آج ہمارا وطن اس موڑ پر ہے کہ کل ہمیں اس کی ضرورت تھی تو آج اس کو ہماری ضرورت ہے ، ہماری محبتوں کی ، ہمارے جذبوں کی ، ہمارے ساتھ کی اور ہمارے تجربوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔جب ہم اس وطن کی خاطر اپنا یہ سب قربان کریں گے اور اس کیلئے صَرف کریں گے تو ہی یہ وہ پاکستان بن سکے گا جس کا خواب دیکھا گیا تھا ، جو یقینا خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان ہوگا۔

پاکستان زندہ باد

پاکستان پائندہ باد

اوّل انعام یافتہ مضمون – زید محسندوم انعام یافتہ مضمون – دانیال حسن چغتائیسوم انعام یافتہ مضمون (1) – تابندہ شاہد
سوم انعام یافتہ مضمون (2) – منیبہ عثمانخصوصی انتخاب (1) – محمد سلیم خانخصوصی انتخاب (2) – ہادیہ جنید گابا

4 Responses

  1. اسلام سے دوری اور خودغرضی دو بڑی وجوہات تو صاحب مضمون نے ترقی یافتہ پاکستان سے محرومی کی سبب بتا دی ٹھیک لیکن حصول منزل کے لیے اقدامات تجویز فرما دیتے تو بہت آ سان ھو جاتا کام۔

    1. حصول منزل کیلئے دوبارہ انہیں چیزوں کو پکڑ لینا ہے جنہیں ہم چھوڑ بیٹھے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email