افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟ ہادیہ جنید گابا

ترقی یافتہ پاکستان … مگر کیسے؟

خصوصی انتخاب – مقابلۂ مضمون نویسی بسلسلہ جشن آزادی 2024

ہادیہ جنید گابا

ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟ ہر پاکستانی اپنے اندر ایک کہکشاں ہے اور یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔


پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی مدینے کے بعد دوسری ریاست ہے۔مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ یہاں کے رہنے والے جیسے جیسے اسلام سے دور ہوتے گئے، ملک بھی ترقّی پذیر ہوتا گیا، ورنہ اسلام کی حقیقی روح تو مسلسل جدوجہد،علم و تحقیق اور فلاح و بہبود کا درس دیتی ہے۔مزید یہ کہ ملک دشمن عناصر نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایسی باتیں گردش میں لانا شروع کیں جو کم ہمّت پاکستانیوں کے حوصلے توڑنے اور ان کو مایوس کرنے کے لیے کافی تھیں،لہذا اگر اس وطن عزیز کو جو کروڑوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا،ترقّی یافتہ بنانا ہے تو پہلے ہمیں یہاں موجود مسائل کا باریک بینی سے ادراک کرنا ہوگا اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔

اس پوری جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستانیوں میں پھیلتی مایوسی ہے جس کو دور کرنے کے لیے ہر فرد کو کوشش کرنی ہوگی اور ایک دوجے کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ ہر پاکستانی اپنے اندر ایک کہکشاں ہے اور یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے،اقبالؔ نے کیا خوبصورت ذہن سازی فرمائی ہے

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ

ہمارا دین بھی مایوسی کو کفر قرار دیتا ہے،لہذا “ہمّت مرداں،مدد خدا” کے مصداق ہر فرد کو کوشش کرنا ہوگی۔دوسرا بڑا اور اہم مسئلہ یہاں کا فرسودہ نظام تعلیم ہے،جس کو حالات حاضرہ کے مطابق جدید کرنے کی ضرورت ہے،سالوں سے پڑھی جانے والی کتابیں اب اپنی افادیت کھو چکی ہیں،ابتدائی تعلیم اور اسکولوں کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں،امتحان کے دنوں میں ہونے والی نقّالی اور رشوت کے نظام نے مزید بیڑا غرق کردیا،حالانکہ یہ وہی قوم ہے جہاں ایک بڑی تعداد میں افراد حج و عمرہ ادا کرنے جاتے ہیں مگر نجانے دین ان کی عبادات سے داخل ہوکر معاملات سے کیوں نکل جاتا ہے؟نتیجتاً یہاں کہ ڈاکٹر انجینیئر قابلیت میں کمی کا شکار ہیں،ہزاروں کی تعداد میں یہاں کی جامعات انجینیئر اور گریجویٹ پیدا کرتی ہیں،مگر پاکستان سالوں پہلے جن مسائل کا شکار تھا آج بھی ہے،تو یہ قابلیت کہاں جا رہی ہے اور کس کام کی ہے؟ سارے الزامات حکمرانوں پر ڈال کر پتلی گلی سے نکل کر پاکستانی خوب دبا کر وسائل کا زیاں کرتے ہیں۔ خدارا اگر اس ملک کو ترقّی یافتہ بنانا ہے،تو بمطابق حدیث ؐ ایک دیوار کی مانند بننا ہوگا جس کی ایک اینٹ دوسری کو مضبوط کرتی ہے،مفاد پرست ہو کر نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔ یہاں بھی اقبالٍؔ نے کیا خوب کہا ہے؛

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

بے روزگاری اور غربت جڑواں بہن بھائیوں کی طرح ایک ساتھ بڑے ہوتے ہیں،اور بہت سے مسائل کی بنیاد بھی ہیں۔ فقر کی سفّاکی تو اتنی ہے کہ یہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ غربت گداگری،نشے کی لت،ڈکیتی،بےراہروی اور خود کشیوں کو جنم دیتی ہے،،جب پیٹ ہی خالی ہوگا تو انسان ترقی کیا خاک کرے گا؟الحمدللہ اس ملک میں صلاحیتوں اور قابلیت سے بھرے نوجوانوں کی کمی نہیں،اگر ان کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ روزگار کے ایسے اسباب پیدا کرسکتے ہیں جس سے کسی گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ رہے اور کوئی باپ اپنے کمسن بچّوں کو قتل نہ کرے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ افرادی قوّت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو ترقّی دینے والے منصوبے بنائے جائیں جس سے غریب کو روزگار ملے۔ لنگرخانوں کے بجائے کارخانے لگائے جائیں تاکہ بھوک و افلاس دور ہو اور غریب کی عزّت نفس محفوظ رہے۔مزید یہ کہ اسلامی تعلیمات کو بروئے کار لاتے ہوئے نمود و نمائش سے گریز کرنے کے قوانین بنائے جائیں تاکہ کسی کی عیّاشی دیکھ کر کسی غریب کا دل نہ للچائے۔ جیسے مغربی ممالک میں ہوتا ہے،تحقیق کے شعبے پر بے پناہ صلاحیتیں صرف کی جائیں،تاکہ یہاں بھی محققین کو پذیرائی ملے۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں میڈیا پر جن کو سراہا جاتا ہے ان کا علم اور قابلیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا،احمقوں کو پذیرائی ملتی ہے اور قابلیت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے،نتیجتاً ڈگریوں والے رکشے چلاتے ہیں یا کوئی اور چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں۔ ایسی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں۔اگر پاکستان کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو علم والوں کو ترقی دینا اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔مگر ایسے حالات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے قابل افراد ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں،وہاں ان کو اپنے قدردان نظر آتے ہیں لہذا وہی ہمارے نوجوانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں،ہمارے میڈیا کا بھی ہمیں اپنے مقصد سے دور کرنے میں اہم کردار ہے،بڑھتی ہوئی نوجوان نسل کو دین سے دور کرکے ناچ گانوں میں ایسا غرق کردو کہ ان کے ذہن مفلوج ہو کر رہ جائیں اور وہ جانوروں کی مانند بس کھائیں پیئیں اور سوجائیں،جب کہ میڈیا کے پاس لوگوں کی ذہن سازی کرنے کا بہت اختیار ہوتا ہے۔ ارتغرل غازی اس کی ایک مثال ہے جس نے پاکستان کے بچے بچے کو کائی قبیلے سے متاثر کردیا،کیا ہمارے پاس ایسے لکھاری نہیں جو میڈیا کے ذریعے تاریخ سے عوام کو روشناس کرواسکیں، عوام کو بتا سکیں کہ تم میں ہمت ہے،جوش و جذبہ ہے،کچھ کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لہذا میڈیا کو بھی صحیح ڈگر پہ لانے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پرانی کہانیاں نئے سبق

اس ملک میں اللہ کے فضل سے اب ایسے لوگ موجود ہیں جو اس ملک سے مخلص ہیں، جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کا سوچتے ہیں، جو ہر پاکستانی بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں،عبد الستّار ایدھی،قوم کا عظیم ہیرا تھے جو اپنے جانے کے بعد کئی عبد الستار ایدھی چھوڑ کر گئے ہوں گے۔اگر پاکستان کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو ہمیں اپنے وقت اور صلاحیتوں کی قدر کرنی ہوگی،قائد کے فرمان کے مطابق “کام،کام اور بس کام” کرنا ہوگا،علم کے حصول کے لیے کوششیں کرنا ہو گی،جب ہر شخص ملک سے مخلص ہو تو وہ دن دور نہیں کہ اب بھی بلند حوصلوں والے محمد بن قاسم پیدا ہوں،یہاں کے بچے صلاح الدین کی تلوار کی مانند ہوں، یہاں کے ذہن ابن الہیثم جیسے ہوں، مگر اس کے کیے ضروری کہ کوئی شخص بھی ہمّت نہ ہارے،اپنی ذات کو پہچانے،اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے؛

ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس بات پر ایمان رکھیے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو رب تعالیٰ کی ذات کبھی ضائع نہیں کرے گی،سنتوں پر عمل کریں تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک بھی ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو، یہاں بدامنی کا نام و نشان نہ ہو۔ جب ہر شخص محنت کرے گا اور اس ملک سے مخلص ہوگا تو وہ دن دور نہیں جب یہاں کی زمین بھی اپنی خزانے اگلے گی۔ بقول شاعر

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

اللہ نے پاکستان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہمارے حکمران ہمارے ہی کردار کے عکاس ہوتے ہیں۔ مفہوم حدیث ہے کہ جو قوم جیسی ہوتی ہے اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ سو اپنی ذمّہ داری نبھائیں، مایوسیوں سے بچیں،حق اور سچ کا ساتھ دیں تو ان شاء اللہ، اللہ بھی اس قوم کا ہاتھ تھامے گا اور اس کو ترقی دے گا۔ اللہ ہمارے پیارے پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔

بقول شاعر

خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو!

اوّل انعام یافتہ مضمون – زید محسندوم انعام یافتہ مضمون – دانیال حسن چغتائیسوم انعام یافتہ مضمون (1) – تابندہ شاہد
سوم انعام یافتہ مضمون (2) – منیبہ عثمانخصوصی انتخاب (1) – محمد سلیم خانخصوصی انتخاب (2) – ہادیہ جنید گابا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *