سوم انعام – مقابلۂ مضمون نویسی بسلسلہ جشن آزادی 2024
منیبہ عثمان
ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟ اقبال اور قائد کے نوجوانوں کے لیے آج بھی کامیابی کے راز وہی ہیں جو کئی دہائیوں پہلے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے زبان زدِ عام تھے۔
”اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں اتنا ہی بڑا ارادہ، اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئیں، پاکستان کی تشکیل و تعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت پڑے گی۔“
یہ تاریخی الفاظ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں، جو انہوں نے عید الفطر کے موقع پر پاکستان بننے کے فوراً بعد 18 اگست 1947 کو اپنے پیغام میں پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہے۔
مملکت پاکستان ہمیں ایک دن میں نہیں ملا بلکہ یہ برس ہا برس کی محنت ہے۔ اس کے پیچھے مسلسل جدوجہد، کوششیں، قربانیاں اور بے پناہ مشقت ہے۔ ہمارے بزرگوں نے آزاد ریاست کا تصور پیش کیا اور اپنی انتھک جدوجہد سے نا صرف ہندوؤں بلکہ انگریزوں کے خلاف بھی بھرپور مقابلہ کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ملک ہر پاکستانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک ہے، جس کی بدولت ہم آج آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں اور اپنی زندگی کو کسی غلامی یا آمریت کے بغیر بسر کر رہے ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے آزاد وطن کے حصول کے لیے اپنے کل اثاثے گھر، مال اور جان آزادی کے لیے قربان کر دیے یہاں تک کہ گھروں سے بے گھر ہوئے، ماؤں نے اپنے جگر گوشے نذر کر دیے اور کتنے ہی ہیرے مٹی میں مل گئے۔
تاکہ ان کی نسلیں کسی کی اسیری میں زندگی نہ گزاریں بلکہ ایک خودمختار اور آزاد وطن کی فضاؤں میں سکھ کا سانس لیں۔ یہ قربانیاں الفاظ کی محتاج ہیں، ہم انھیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جن مشکل حالات میں یہ ملک وجود میں آیا وہ ناقابل بیان ہیں۔ شاعر نے نسل نو کو کس خوبصورت انداز میں پیغام دیا ہے۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
پاکستان کو عظیم تر دیکھنے کی خواہش ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں ٹھاٹھیں مارتی ہے اور یہ جذبہ تب اور بھی زیادہ جوش میں ہوتا ہے جب ہم اپنے ہی کسی ہم وطن کو ملک کا نام روشن کرتا ہوا دیکھتے ہیں یا جب کوئی قومی دن منانے کی تیاری ہوتی ہے۔ اس دوران ہر چھوٹے بڑے میں پاکستانیت کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانچ داناؤں کی کہانی
اقبال اور قائد کے نوجوانوں کے لیے آج بھی کامیابی کے راز وہی ہیں جو کئی دہائیوں پہلے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے زبان زدِ عام تھے۔ پاکستان کی ترقی کا راز دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی پسند پالیسیوں سے قطعاً مختلف نہیں ہے بلکہ وہی سب اصول اور قانون جن سے ایک قوم عروج حاصل کرتی ہیں، ہم بھی بطور پاکستانی ان ضوابط پر عمل کر کے، پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
تعلیم انسان کا زیور ہے اور ترقی کے زینے کا سب سے پہلا اور بنیادی قدم بھی تعلیم کو حاصل کرنے سے اور تعلیم کو فروغ دینے سے اٹھتا ہے۔ جس میں ہر بچے کو اس کے پس منظر اور حالات سے بالاتر ہو کر تعلیم کا حق دینا حکام کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہر بچے کے لیے معیاری تعلیم، تعلیمی اداروں کی بحالی اور اساتذہ کی تربیت ایک کامیاب اور تعلیم یافتہ پاکستان کی ضمانت ہیں۔ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں تعلیم کا وہ طرز بھی اپنانا چاہیے جو ہمارا دین سکھاتا ہے۔ جس میں علم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہنرمند افراد کسی بھی ملک کی افرادی قوت میں بہترین بازو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں بلکہ معیشت اور معاشرت بھی مستحکم ہوتی ہے۔
پاکستان چونکہ زرعی ملک ہے، اس لیے زراعت پاکستان کی معیشت میں ایک ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں سے آراستہ کرنا، ٹیکنالوجی کا استعمال سکھانا اور ان کو ایسی جدید مشینری اور قرضے فراہم کرنا جس سے ان کے کام میں آسانی ہو اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے ملکی ترقی میں حصہ لے سکیں۔
پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ جو پاکستان پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، ان میں ہم آہنگی اور استحکام ہو کیونکہ وہ پورے ملک کا نظام چلانے کے علمبردار ہیں اور اس وجہ سے ان اداروں کے حکام پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باکردار، باصلاحیت، اہل اور ملک اور قوم کے ساتھ وفاداری اور اپنے فرائض کو ایمانداری سے پورا کرنے والے ہوں۔ کیونکہ جب حکمران قابل ہوگا تو رعایا کا اعتماد اس پر بڑھے گا جس کی وجہ سے جمہوریت مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی کے لیے سازگار ماحول اور مواقع پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی ترقی کا راز بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ اس پر بھی منحصر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات اور شفاف پالیسیوں کا نفاذ کریں۔ اس سے ملکی ترقی کی رفتار تیز ترین ہو جائے گی۔ ملک کے تمام اداروں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے والا عدالتی نظام بھی شفاف اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ طاقت ور کے لیے بھی وہی قانون ہو جیسے کمزور کے لیے۔
پاکستان کو اللہ تعالی نے بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور ان وسائل کا بہترین استعمال کر کے پاکستان کے انفراسٹرکچر جس میں سڑکیں، پل، ریلوے کا نظام، جدید طرز پر بنی عمارتیں، مواصلاتی نظام کو بہتر بنایا جائے۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس نوجوانوں کو مواقع دیے جائیں تاکہ وہ اپنے ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کام کریں۔
اسی طرح صحت کے شعبے میں تمام بنیادی سہولیات اور معیاری ہسپتال فراہم کرنا بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ صحت مند معاشرہ ہی کسی بھی ملک کی طاقت کا ضامن ہے۔
اسی طرح مختلف اداروں اور سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت سے بہت سے معاملات میں ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ جہاں مناسب ہو خواتین کو کاروبار اور ملازمتوں میں شراکت داری کا موقع دیا جائے۔
اس کے علاوہ سیاحت کے شعبے کو بھی فروغ دیا جائے کیونکہ اس سے پاکستان کی ثقافت اور خوبصورتی کو دنیا میں نمائندگی کا موقع ملے گا اور نوجوانوں کے لیے عالمی اور بین الاقوامی سطح کے مختلف تعلیمی اور غیر نصابی مقابلہ جات میں مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ ملک اور قوم کا نام روشن کر سکیں اور پاکستان کو دنیا کے صف اول کے ترقی یافتہ ممالک میں کھڑا کر سکیں۔
آئیے، ہم عہد کرتے ہیں کہ ایک سچا پاکستانی ہونے کے ناطے اس وطن کی محبت کو اپنے ایمان کا حصہ بنا لیں گے، اس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، اپنی تاریخی ورثے کی حفاظت کریں گے، اس کے تہذیب و تمدن کا بول بالا کر دیں گے، اپنے وطن کو ہر قسم کے شرپسند عناصر سے محفوظ رکھیں گے اور جو بھی طاقت یا عمل ہمارے ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا، ہم اُس کا مردانہ وار مقابلہ کریں گے۔ ہم دل و جان سے پاکستان کی حفاظت کریں گے اور اسے ہمیشہ فخر اور وقار کے ساتھ سربلند رکھیں گے۔ یہی زندہ قوموں کی ترقی کا راز ہے اور اس طرح ہم اپنے بزرگوں کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کر سکتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب دعا اپنے وطن کے نام کی
خدا کرے میری ارض پاک پراترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے صدیوں
یہاں سے خزاں کو گزرنے کی مجال نہ ہو