سوم انعام – مقابلۂ مضمون نویسی بسلسلہ جشن آزادی 2024
تابندہ شاہد
ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟ پاکستانی عوام صرف “سچائی” کی صفت اپنا لے تو اللّٰہ کی نصرت کے ساتھ کامیابی یقینی ہے ۔
متذکرہ بالا موضوع پر خامہ فرسائی کرنے سے پہلے چند امور کی وضاحت ضروری ہے۔
اولاً : کسی بھی ملک کا متعین وجود کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ثبت ہوتا ہے جسے نقشہ کہتے ہیں اور خطۂ ارض پر وہ قوموں اور قبیلوں سے پہچانا جاتا ہے ۔
ثانیاً : کوئی ملک بذات خود ترقی یافتہ یا ترقی پذیر نہیں ہوتا بلکہ اس ملک کے عوام کا بود و باش متعلقہ ملک کو یہ سند عطاء کرتا ہے ۔
ثالثاً : جب یہ طے ہے کہ ایک غیر مادی وجود جِسے ملک کا نام دیا جاتا ہے ، اپنے مادی استحکام کے لیے انسان کا مرہونِ منت ہے تو ہماری بحث کا نقطۂ محور بھی ملک نہیں بلکہ انسان ہونے چاہیے ۔
لہٰذا ہمارا موضوعِ سخن یہ ہو گا کہ پاکستان کی عوام کو کیسے ایک ترقی یافتہ قوم بنایا جا سکتا ہے کہ جس کے بعد پاکستان کو ترقی یافتہ ملک قرار دے دیا جائے گا۔
ترقی ایک ہمہ جہت عمل ہے جس کا ہر ایک پہلو ترقی کا مستقل جُز ہے مثلاً روحانی ترقی، علمی ترقی ، مادی ترقی وغیرہ۔ پہلے ہم ان جہتوں کو قدرے تفصیل سے دیکھتے ہیں ۔
روحانی ترقی:
دینِ اسلام میں سب سے زیادہ اسی کی اہمیت ہے ۔ اس میں انسان اسلام کی روشنی میں اپنے کردار کی اصلاح اور اس کی پختگی میں ترقی کرتا ہے ۔ اس کا اخلاق ، معاملات ، اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ سے اس کا تعلق اور دنیاوی زندگی کا ایک ایک پہلو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہے ۔ یہی روحانی ترقی ہے ۔
علمی ترقی:
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی بہترین تخلیق ” آدم” کو علم کی بناء پر مسجودِ ملائکہ قرار دیا اور یہ دنیاوی علم تھا۔ جنت میں دنیا و ما فیھا کا علم دیا اور زمین پر اتارے جانے کے بعد ہدایت کا سلسلہ شروع کیا کیونکہ زمین پر حضرتِ انسان کے ساتھ شیطانِ لعین کو بھی اترنے کا حکم ہوا تھا جو قبل ازیں مردود ٹھہرائے جانے سے پہلے ہی رب العالمین سے ” اُسی” کے بندوں کو بہکانے کی اجازت و مہلت لے چکا تھا ۔ دنیا میں عقل و شعور سے مزین انسان کو ، اللّٰہ کی بنائی ہوئی زمین پر ، اللّٰہ کے مہیا کردہ خام مال سے ، اپنی ضروریاتِ زندگی کشید کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ انسان نے اپنے جبلی ذہانت سے دنیاوی علوم و امور میں دسترس حاصل کی اور شیطان کی چالوں سے بچنے کے لیے خالقِ کل نے ہدایت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ اس کی بہترین مثال قومِ عاد و ثمود ہیں جن کی تعمیراتی ترقی کا راز ابھی تک پوشیدہ ہے مگر انجام ۔۔۔۔۔
اور دورِ فرعون میں لاشوں کو ممیانے کا علم لشکرِ فرعون کے ساتھ ہی دریائے نیل میں دفن ہو گیا کیونکہ ایسا دنیاوی علم اور ترقی جو ہدایت سے مبرّا ہو ، وہ خالقِ کائنات کے نزدیک غرق ہونے کے ہی قابل ہے۔
مادی ترقی:
عام الفاظ میں کسی ملک کی مادی ترقی ہی اُسے ترقی یافتہ قرار دینے کے لیے کافی ہے ۔ مادی ترقی سے مراد یہ ہے کہ کسی ملک میں رہنے والے ہر ایک باشندے کو اس کی بنیادی ضروریات یعنی رہائش ، خوراک ، تعلیم اور ذریعہ معاش بآسانی دستیاب ہوں ۔ فی زمانہ کسی ملک کو ” ترقی یافتہ” کی سند ، اس کی علمی و مادی ترقی کی بنیاد پر ملتی ہے ۔ یکساں نظام تعلیم ، ہائی اسکول تک تعلیم مفت، بعد ازاں باعزت روزگار کا آسان حصول خواہ وہ پٹرول پمپ ہو یا گھروں کی صفائی و مرمت یا کچرا ٹھکانے لگانے والی کمپنی کا کارندہ ، کسی صورت اس کی عزت نفس مجروح نہیں کی جا سکتی ۔ بڑے شہروں میں صنعتوں کے جال ، بڑے بڑے کاروباری مراکز ، کشادہ شاہراہیں ، رات کو دن کا سماں ، آسان و ارزاں ذرائع حمل و نقل ، اپنی محنت سے جتنا چاہے کمانے کی آزادی اور ۔۔۔۔۔
دیہاتوں میں لہلہاتی فصلوں کی کٹائی اور پھلوں سے لدے باغات سے فصل اتارنے کی جدید سہولیات ، پختہ مکانات ، صاف ستھری گلیاں اور بازار ، کچرا تلف کرنے کا جدید نظام اور دیگر کئی سہولیات جو عوام الناس کو مہیا ہیں ، اس ملک کو ترقی یافتہ قرار دیتی ہیں لیکن ۔۔۔۔
عصرِ حاضر کے ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک حقیقتاً ترقی یافتہ نہیں ہیں ۔ ترقی کے روحانی پہلو کے اعتبار سے یہ ناصرف صفر درجے پر ہیں بلکہ تنزلی کی جانب مائل بہ ترقی ہیں ۔ ایک عمارت کی پائیداری کا انحصار اس کی بنیاد کی مضبوطی پر ہے اور ان نام نہاد ترقی یافتہ اقوام کے معاشرے کی عمارت بے بنیاد اور ناپائیدار ہے جیسے قومِ عاد و ثمود یا فرعون !
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں:
یہ بھی پڑھیں: مثبت زندگی کیسے جئیں؟
ترقی یافتہ پاکستان … مگر کیسے؟
عصرِ حاضر میں ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں جنھوں نے ہمارے آس پاس ہی آزادی حاصل کی اور آج وہ دنیا کی جدید ترین ترقی یافتہ اقوام میں سرِ فہرست ہیں ۔۔۔۔ جاپان اور چین ۔
جاپان نے اپنی زبان میں دس سالہ تعلیمی نصاب مرتب کیا ۔ پھر اس کے مطابق پہلی جماعت سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ دس سالوں میں صنعتی ماہرین کی پہلی کھیپ تیار ہو گئی ۔ بعد ازاں جاپانی قوم نے درجہ بدرجہ اپنے علم ، مہارت اور قابلیت سے صنعتی انقلاب برپا کر دیا ۔
چین میں ان کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ نے اوپر سے نیچے تک ، ہر ایک مرد و زن اور بوڑھے جوان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ۔ حقیقتاً روٹی ، کپڑا اور مکان کی بنیاد پر عوام سے دن رات کام کروایا اور خود بھی ان ہی جیسا بود و باش اختیار کیا ۔ عرصۂ دراز تک چینی قوم باقی دنیا سے لاتعلق رہی اور آج وہ اقوام عالم میں سر اٹھا کر کھڑے ہیں مگر فطرت کی سادگی ہنوز قائم ہے ۔
لیکن پاکستان کے لیے یہ دونوں مثالیں قابلِ عمل نہیں ہیں ۔ ہمارے لیے قابلِ عمل مثال دورِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں ہے ۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اپنے بعد ایک ایسی تربیت یافتہ نسل چھوڑی جس نے بیس برس کے قلیل عرصے میں آدھی دنیا کو اسلام کے زیرِ نگیں کر دیا ۔ عصرِ حاضر میں حضرت عمر رض کے ترقی یافتہ معاشرے کی پالیسیوں کو کئی ممالک نے اپنایا ہوا ہے ۔ ترقی یافتہ پاکستانی معاشرے کے قیام کے لیے بہت زیادہ ہل جوتنے اور جوئے شیر لانے کی ضرورت نہیں بلکہ محض خلافتِ راشدہ کے چند بنیادی اصولوں کو اپنانے سے ہی ترقی کی منزل کا راستہ کھُل جائے گا مگر بشرطِ استواری!
ادوارِ صحابہ کی بنیادی خصوصیات:
1: ” اتقوا اللّٰہ ” کے حکم پر سختی سے کاربند ۔
2: حصولِ انصاف آسان اور یقینی ، قاضی کی عدالت میں امیر المؤمنین کو استثناء حاصل نہیں تھا۔
3: عہد و میثاق کی یقینی پاسداری ( مقامی اور بین الاقوامی )
4: ہر ایک قانون میں عوام الناس کا بہبود مقدم، مہر کی حد مقرر تو ایک عورت کے اعتراض پر قانون کالعدم ۔
5: نفاذِ قانون میں حکمران و عوام برابر ۔
6: بہترین تعلیمی نظام ۔
7: انتظامی امور پر باصلاحیت و قابل لوگوں کی تقرری ۔
8: لشکر کشی کا مقصد کشور کشائی نہیں بلکہ مظلوم کی پکار پر اس کی دادرسی کرنا ۔
9: پُر اخلاص ، بے ریا ، حرص و طمع سے خالی ، سادگی ، قول و فعل میں مطابقت ۔
10: امورِ مملکت میں صائب الرائے مجلسِ شوریٰ سے مشاورت لیکن حتمی فیصلے کا اختیار امیر المؤمنین کے ہاتھ میں ۔
مندرجہ بالا صفات سے متصف حکمران لے آئیے نیز اپنی زمین ۔۔۔ ثقافت اور زبان سے محبت کرنے والے ، اپنی بات کو عملی جامہ پہنانے والے۔
اور ۔۔۔۔
پاکستانی عوام صرف “سچائی” کی صفت اپنا لے تو اللّٰہ کی نصرت کے ساتھ کامیابی یقینی ہے ۔ تو ! ترقی یافتہ پاکستان ۔۔۔۔۔ ایسے!!!
2 Responses
بہت عمدہ تحریر
بہت شکریہ جاوید بھائی