دوم انعام – مقابلۂ مضمون نویسی بسلسلہ جشن آزادی 2024
دانیال حسن چغتائی
ترقی یافتہ پاکستان، مگر کیسے؟ اس کے لیے ہم جب تک قیادت کی روح اور اصل منزل کا جامع و درست ادراک نہیں کریں گے تب تک ہم اپنی منزل کی جانب سفر اختیار ہی نہیں کر سکتے۔
آزادی کے 76 برس بعد بھی یہ سوال ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ہم آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی آخر وہاں کیوں نہیں ہیں جہاں ہمیں اب تک ہونا چاہیے تھا اور جہاں ہمیں پہنچنا ہے، وہاں پہنچنے کے لیے اپنے سفر کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟
افسوس صد افسوس، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قائد اعظم محمد علی جناح تک لیڈر شپ کی ان گنت روشن مثالیں موجود ہونے کے باوجود ہم نہ تو آج تک قیادت کی تعریف کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھ پائے اور نہ پاکستان کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی مملکت میں ڈھالنے کے لیے اپنا قبلہ اور ایکشن پلان طے کر پائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد اکثر تاریخ کے نازک دور سے گزرنے والی کیفیت میں مبتلا پایا گیا۔
اس ملک کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہے مگر کبھی کسی نے ان نا تجربہ کار اور پر جوش نوجوانوں کو منظم اور مربوط طریقے سے یہ سمجھانے کی زحمت نہیں کی کہ آخر وہ یہ ہمالیہ کیسے سر کریں گے۔ ہم جب تک قیادت کی روح اور اصل منزل کا جامع و درست ادراک نہیں کریں گے تب تک ہم اپنی منزل کی جانب سفر اختیار ہی نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ قیادت کسی ملک اور قوم کی تاریخ پر کس طرح اثر انداز ہوا کرتی ہے۔
اس مختصر مضمون میں ہم ان تجاویز کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے جن سے ہم اپنی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو ترقی کے زینے کی طرف لے جا سکیں۔
ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو سب سے پہلے قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ یہی وہ کلید ہے جو کسی ملک میں سرمایہ کاری و سیاحت کو فروغ دیتی ہے۔ امن و جنگ دونوں صورتحال لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ امن کو ڈسنے والے سانپ جن بلوں سے نکلیں ان کو فوری طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔
ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ توانائی کا ہے۔ کتنی ہی حکومتیں آئیں، پانچ سالہ منصوبے بھی بنائے گئے لیکن کسی نے دیانت داری کے ساتھ ہمارے اس سب سے بڑے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کالا باغ ڈیم ہمارے تمام مسائل کو ختم کر سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہیے کیونکہ پہلے ہی ہم صوبائیت پرستی کی لعنت کی وجہ سے اپنا ایک بازو کھو چکے ہیں اور مزید ایسی کسی صورتحال کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ ڈیم بن جاتا ہے تو نہ صرف ہمارے توانائی کے مسائل حل ہوں گے بلکہ ہماری معیشت کی ترقی میں بھی یہ ڈیم بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ملک میں فصلوں کے لیے پورا سال وافر مقدار میں پانی میسر ہوگا بلکہ جو سیم زدہ علاقے ہیں ان کو بھی قابلِ کاشت کیا جا سکتا ہے۔ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا تو دوسری طرف زرعی مصنوعات اور اجناس کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس ڈیم کے بننے سے لوگ ہر سال آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ اس ڈیم کے ذریعے ہونے والی آبی خوشحالی ہماری زرعی، توانائی اور تجارتی ترقی میں ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔
توانائی کا ایک اور اہم استعمال شعبہ ٹرانسپورٹ میں ہے۔ جدید ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تیل پر ہمارا انحصار کم ہو اور صنعتوں کو ارزاں نرخوں پر فراہم کیا جا سکے۔ اس سے ماحول میں آلودگی بھی کم ہوگی تو دوسری طرف قومی وسائل کی بھی بچت ہوگی جن کو عوامی فلاح و بہبود کے دوسرے منصوبہ جات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تعلیم اور شرح خواندگی بھی پاکستان کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے بلکہ اسے ام المسائل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہمارے ملک میں سکول جانے کے قابل بچوں کی کثیر تعداد سکولوں سے باہر ہے جو عصر حاضر کے معزز معاشروں میں ایک سنگین جرم سے کم نہیں۔ جب یہ بچے سکول نہیں جا پاتے تو ان کے والدین کام پر لگا دیتے ہیں جو چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے اور قانوناً جرم ہے۔ ایک ہی ملک ہونے کے باوجود الگ الگ نظام تعلیم ہیں۔ نجی اور سرکاری سکولوں کے بچوں میں یہ تفاوت پھر ملازمتوں اور تمام شعبوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
ہماری کوئی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ سو یونیورسٹیوں میں شامل نہیں۔ چند مخصوص شعبہ جات کو چھوڑ کر باقی شعبہ ہائے زندگی جن میں انڈسٹریل، ووکیشنل، آرٹ اینڈ کرافٹ کی تعلیم کے کوئی کالجز موجود نہیں۔
اس ساری صورتحال کا تدارک تعلیم کے بجٹ کو دفاع کے برابر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘تعلیم سب سے پہلے، تعلیم سب سے اہم’’ کے سلوگن کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نظام تعلیم کو اپنانا ہوگا۔ اُردو کو بنیادی ذریعہ تعلیم قرار دینا ہوگا۔ انگریزی کو ایک مضمون کی حد تک محدود کیا جانا چاہیے۔ کوچنگ اور اکیڈمی سنٹر مافیا کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ تعلیم میں ہی ہماری ترقی، بقا و عروج کا راز مضمر ہے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ سکولوں میں دینی علوم کو بھی رائج کیا جائے جس میں ترجمہ قرآن، اسلامیات، فقہ اور حدیث ترجیحی بنیادوں پر پڑھائی جائے۔ اگر یہ اقدامات اٹھا لئے گئے تو ہر پاکستانی اپنی ذات میں ایک بہترین عالم، مفسر اور مذہبی سکالر ہوگا جیسے مذہب کے معاملے میں کسی کے انتہا پسندانہ خیالات اور افکار کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کردار کی اعلیٰ صفات
اس کے ساتھ ساتھ چھٹی جماعت سے ماسٹر لیول تک ہر طالب علم کے لیے تعلیمی سال میں ایک ماہ کی فوجی ٹریننگ کو لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ بحیثیت قوم ہم وقت پڑنے پر ہر مشکل کا سامنا احسن اور مضبوط طریقے سے کر سکیں۔ اگر ہم نے دنیا میں اپنی شناخت قائم کرنی ہے تو تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دینی ہوگی۔ جہاں تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی وہ غربت، جہالت، جرم اور سماجی نا ہمواریوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں اور یہی صورتحال ہمیں بھی در پیش ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ ہمیں صوبائیت کا در پیش ہے جس کے نام پر ہم نے پون صدی اپنے ذاتی مفادات، لسانیت اور قومیت کے سانپ خود دودھ پلا کر پروان چڑھائے اور اس پورے عرصے میں ہماری عوام ان کے مظالم سہتی رہی اور پستی رہی۔ وڈیروں، جاگیر داروں اور گدی نشینوں کے شملے اونچے رہے اور عوام کی حالت بد تر ہوتی چلی گئی۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور صوبائیت کے خلاف سخت اقدامات سے اس مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
آج کل کی جدید دنیا میں کسی بھی ملک کے مضبوط ہونے کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ مضبوط معیشت ہے۔ پاکستان بننے سے اب تک جتنے جھٹکے ہماری معیشت نے سہے ہیں اس کے بعد ہمارا دیوالیہ نہ ہونا اتنا ہی بڑا معجزہ ہے جتنا اس ملک کا وجود میں آنا۔ ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارا ہر فرد لاکھوں کا مقروض ہے۔ ہمیں ماضی کو فراموش کر کے انفرادی سطح پر ایمانداری، خدمت خلق اور حب الوطنی کے جذبات سے تعمیر نو کے جذبات کو فروغ دینا ہوگا۔
اپنی ملکی پیداوار پر انحصار کرتے ہوئے برآمدات کو کم سے کم کرنا ہوگا۔ بد عنوانی کو قومی جرم قرار دینا ہوگا۔ عوام سے لئے گئے ٹیکس کو جب عوام پر لگایا جائے گا تو عوام کا قیادت پر اعتماد بھی بحال ہوگا اور ترقی کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ہر رات کے بعد صبح آتی ہے۔
اگر ہم صدق دل سے توبہ کر لیں اور مستقبل کے لیے روڈ میپ بنا کر چلیں تو اللہ کی مدد بھی ان شاء اللہ شامل حال ہوگی اور اقوامِ عالم میں ہمارا ایک باوقار قوم کی حیثیت سے مقام بھی بحال ہوگا۔