Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

تربیلہ کا سفر

تربیلہ کا سفر

جمیل احمد

حسب سابق حکم صادر ہوا کہ  “میں اسلام آباد آ رہی ہوں؛ ایک دن  بھائیوں سے ملنا ہے اور گھومنا پھرنا ہے۔” تاریخ بھی دے دی۔ “فرمانِ شاہی”  سے انحراف کی سرِ مُو گنجائش نہ تھی۔ وہ تو غنیمت تھی کہ  مقام کا انتخاب کرنے کی آزادی مل گئی۔

یہ چار کا ٹولہ ہے۔ جیسا کہ ایک کالم میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ایک پروجیکٹ میں کچھ عرصہ اکٹھے کام کیا۔ پھر تعلق  “راہِ محبت”  کی منازل طے کرتا ہوا بھائیوں بہنوں جیسے احترام کے رشتے پر جا ٹھہرا۔ برادران مطلوب حسین ، ذوالفقار علی  اور خاکسار اس  ٹولے کے تین ارکان ہیں ، جب کہ ڈاکٹر رفعت نبی، جنھیں ہم رفعت آپا کہتے ہیں، اس کی سرگرم رکن ہیں۔ مطلوب حسین تو بلا شرکتِ غیرے سربراہ کا درجہ رکھتے ہیں، اور رفعت آپا   …….. ان کے کردار کا تعین کرنے کے لیے ابھی الفاظ ڈھونڈ رہا ہوں۔

خیر، منصوبہ بندی شروع ہوئی۔ ذوالفقار بھائی ملک بھر کے اہم مقامات  اور ان کی تاریخ سے وقف ہیں۔ دوسری طرف مطلوب حسین انتظامات کے معاملے    میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں۔ مشورے کے بعد قرعۂ فال تربیلہ کے نام نکلا۔

تربیلہ کا نام آتے ہی ذہن چھپّن سال  پیچھے چلا گیا ، جب والد گرامی کی پوسٹنگ منگلا سے تربیلہ ڈیم میں ہو گئی۔پھر بچپن کے چند خوب صورت اور یادگار سال وہاں گزرے۔ اپنا سکول، سکول کے قابلِ احترام اساتذہ، کلاس فیلوز، اپنے دور کے اعتبار سے جدید اور منظّم انفرا اسٹرکچر، غرض ایک ایک کر کے یادوں کے عکس ذہن کی سکرین پر ابھرنے لگے۔ ملک بھر سے لوگ ملازمت کی غرض سے وہاں مقیم تھے۔اس لحاظ سے تربیلہ ڈیم گویا مِنی پاکستان  کی حیثیت رکھتا تھا۔ بچپن اور لڑکپن کا دور تھا، تو یہ سب نقوش اور ان کے اثرات  لاشعور میں جا بسے۔

تربیلہ ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا اور مٹی سے تعمیر کیے گئے دنیا کے بڑے زمینی ڈیموں میں شمار ہوتا ہے، جس کی بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت تقریباً 4,888 میگا واٹ ہے۔۔ یہ ڈیم دریائے سندھ پر واقع ہے ۔ڈیم کی  تعمیر 1968 میں شروع ہوئی، جو 1976 میں مکمل ہوئی۔ یہی ہمارے وہاں قیام کا عرصہ تھا۔ اس طرح ہمیں ڈیم کی تعمیر کے مختلف مراحل کا بچشمِ خود مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

مطلوب حسین ساتھ ہوں اور منصوبے کی تفصیلات واضح نہ ہوں، یہ ممکن نہیں۔ اور منصوبے کا سب سے اہم حصہ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ  خاص طور پر خود کو اور ہم سفروں کو لذّتِ کام و دہن  سے سرشار کرنا ہوتا  ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مطلوب صاحب کو یہ صلاحیت عطا کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی۔ ویسے بھی ہم پاکستانیوں کے معدے اور دل، دونوں کو خوراک کی طلب بڑی جلدی محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں موٹر وے  سے جانا تھا۔ لہٰذا ایک دن پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ ناشتہ کہاں کرنا ہے۔

یہ ایک مشہور چین (Chain) ہے۔ذوالفقار بھائی وہیں ہم سے آملے۔ حسبِ پروگرام اور حسبِ استطاعت حلوہ پوری سے انصاف کیا۔ ذائقہ لاجواب تھا۔ معدے سے فُل سٹاپ لگانے کا پیغام موصول ہوا  تو ہمارا  ناتمام سفر پھر سے شروع ہو گیا۔

موٹر وے ٹول پلازہ پر پہنچے تو ایم ٹیگ لین کا بیرئیر نہ کھلا۔ وہیں مطلوب صاحب پر یہ عقدہ کھلا کہ بیلنس ریچارج کروانا ہے۔ اگرچہ کیش لین کا آپشن بھی موجود تھا، لیکن صاحب نے ایم ٹیگ ریچارج کروانا مناسب سمجھا۔ اب بیرئیر کھلا اور ہم دوبارہ سڑک پر رواں دواں ہوگئے ۔

یہ بھی پڑھیں: بے چین روحیں، قلندر آباد اور الیاسی مسجد

سفر جاری تھا، اور ساتھ ہی دوستوں کی بحث بھی کہ کھیتوں کی ہریالی کو دیکھ کر کس قسم کی شاعری کرنی چاہیے۔ اتنے میں آپا کو اقبال کی نظم   “ایک آرزو” کا مصرع  یاد آ گیا :

ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

مجبوراً اس شعر کا پہلا مصرع  ڈھونڈنا پڑا:

شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا

میری اہلیہ کو یہ نظم بہت پسند ہے۔ ہم اس  میں پیش  کیے گئے تخیل کا ذکر کر کے سر دُھنتے رہے۔

میرا ذہن ایک تخیلاتی مکالمے میں اُلجھا ہو اتھا، جس کے ڈائیلاگ کچھ یوں تھے:

میں: یہ سبزہ، یہ کھیت، یہ کھلیان… بس یہی زندگی کی اصل خوشی ہے!

آپا: یہ ہرے بھرے کھیت ہمیں سکھاتے ہیں کہ صبر اور محنت کا پھل ملتا ضرور ہے، بس وقت لگتا ہے۔

ذوالفقار بھائی: یہاں صرف سرسوں اور گوبھی کے کھیت ہی نہیں ہیں، بلکہ کئی اور سبزیاں اور پھل بھی اگائے جاتے ہیں۔ تازہ سبزیاں کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔

بیگم: جی چاہتا ہے ان کھیتوں میں دور نکل جائیں اور جی بھر کے فطرت کے دلکش مناظر کو اپنی آنکھوں میں جذب کر لیں۔

مطلوب حسین:  زندگی کا اصل مزہ حلوہ پوری  میں تھا، جو ہم کھا چکے ہیں۔ باقی سب بکواس ہے!مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ لنچ کا وقت ہونے والا ہے!

ابھی آخری ڈائیلاگ چل رہا تھا کہ آپا نے ہمارا امتحان لینے کے لیے ایک اور مصرع  ارشاد فرمایا:

ڈرتے ڈرتے دم سحر سے

مرتا کیا نہ کرتا۔ گوگل سے اقبال کی مشہور نظم چاند اور تارے تلاش کی اور پوری کی پوری سب کو سنا ڈالی۔ پھر تحسین طلب نظروں سے آپا کی طرف دیکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے آپا نے ایک شانِ بے نیازی سے کوئی تعریفی جملہ کہا تھا۔

موٹر وے سے اتر کر غازی کی طرف رخ کیا۔بالآخر ہم دریائے سندھ کے قریب پہنچے ۔دریا کے کنارے  کسی نے ایک کشادہ ریستوران بنا رکھا ہے۔ذوالفقار بھائی غالباً یہاں آتے جاتے رہے ہیں۔ سو ہم وہاں داخل ہو گئے۔ایک جانب دریا کی طرف جانے کا راستہ رکھا گیا ہے۔ہم دریا کی طرف اتر گئے۔ کنارے پر شفّاف پانی اور اس میں دکھائی دینے والے رنگ برنگ کے خوب صورت دریائی پتھرآنکھوں کو بہت بھلے لگے۔  ایک جگہ اُتھلے پانی کو دیکھ کر ہم  نے اپنے جوتے اتارے اور پانی کی لہروں کو “محسوس” کیا۔  فطرت کی قربت  میں کس قدر طمانیت ہے!

ہم آپس میں بات کر رہے تھے کہ بہتے پانی کی آواز کتنی سکون آفریں ہے ۔ذوالفقار بھائی نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا  کہ جاپان میں واٹر تھراپی  صحت و تندرستی کے لیے ایک مقبول طریقہ ہے۔اس کا بنیادی اصول صبح نہار منہ خالص پانی پینے پر مبنی ہے، جسے جاپانی روایتی طریقہ علاج میں صحت کے لیے بے حد فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔یہ طریقہ جاپان میں خاص طور پر روایتی نیچروپیتھی (قدرتی علاج) کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں دریا کے کنارے خاصا وقت ہو چکا تھا۔اب  ہم نے فیصلہ کیا کہ لنچ کیا جائے۔ ریستوران میں واپس آئے اور کھانے کا آرڈر مطلوب صاحب کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ایسے موقعوں پر مطلوب صاحب  رضاکارانہ طور پر کھانا تیار کرنے کے عمل کی بنفسِ نفیس نگرانی کرتے ہیں۔

ریستوران کا انتخاب ذوالفقار بھائی نے کیا اور آرڈر مطلوب صاحب کی چوائس تھی۔ کھانا واقعی بہت لذیذ تھا۔ ہم نے بساط بھر کوشش کی کہ شکم کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

آتے ہوئے ذوالفقار بھائی نے مژدہ سنایا تھا کہ تازہ مالٹے کھائے بغیر تربیلہ کی سیر مکمل نہیں ہوسکتی!  واپسی پر ہمیں مطلوبہ مالٹے تو نہ مل سکے، البتہ آپا نے مالٹے کے ایک باغ میں تصویر کھنچوا کریہ حسرتِ ناتمام پوری کرنے کی کوشش کی۔

سفر آپ کبھی بھی اور کسی بھی جگہ کا کر سکتے ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ کسی بھی جگہ کی خوبصورتی اس کے مناظر سے زیادہ اس بات میں ہوتی ہے کہ آپ کے ساتھ کون موجود ہے۔

ہم نے تربیلہ میں نہ صرف خوبصورت نظاروں کا لطف اٹھایا بلکہ پائیدار دوستی کی مٹھاس، کھانے کی لذت اور ہنسی مذاق کی چاشنی بھی حاصل کی۔ واپسی پر سب تھکے ہوئے تھے، لیکن دل خوش اور ذہن ترو تازہ تھے۔ اگلی منزل کہاں ہوگی، یہ تو معلوم نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ جہاں بھی جائیں گے، وہاں سے ایک نئی توانائی لے کر ضرور لوٹیں گے!

2 Responses

  1. Zbrdst!

    چلیں ھم بھی مفت میں ایسی خوبصورت سیر کر آ ئے
    جناب مطلوب صاحب تو جان محفل پائے گئے
    چار کا ٹولہ خوش نصیب ھے
    ایسے نابغہ روزگار الف لیلاوں میں ملتے ھیں
    واقعی سفر وسیلہ ظفر ھے
    مسافر نواز بہتیرے
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *