Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

بے چین روحیں، قلندر آباد اور الیاسی مسجد

بے چین روحیں، قلندر آباد اور الیاسی مسجد

جمیل احمد

رفعت آپا جب بھی کراچی سے اسلام آباد آتی ہیں، ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں۔ اس بار بھی انھوں نے کوئی ایک مہینہ پہلے ہی اپنا پروگرام بتا دیا تھا اور کہہ رکھا تھا کہ خبردار کوئی ہلنے نہ پائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذوالفقار بھائی نے “آپا کے نالائق بھائی” کے نام سے واٹس ایپ گروپ بنا دیا۔ ڈاکٹر رفعت نبی کو، جو  عمر، تعلیم اور رُتبے میں ہم سے کہیں بلند مقام پر فائز ہیں،  ہم رفعت آپا کہتے ہیں، یا ہمیں کہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔بڑی بہن کے حکم سے فرار کا کوئی راستہ نہ پا کر تینوں چھوٹے بھائیوں نے چار و ناچار دو دن ساری مصروفیات کو ایک طرف رکھنے کا فیصلہ کیا؛ یوں آپا کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔

قصّہ چھوٹے  بھائیوں کا یہ ہے کہ ہم نے ایک تعلیمی پروجیکٹ میں زندگی کے چند قیمتی سال اکٹھے گزارے۔بہت سے ساتھیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔  کام کا تعلق دوستی میں بدل گیا ، جو اب تک قائم ہے۔آپا بھی کچھ عرصے کے لیے اس پروجیکٹ میں آئیں ۔پہلے ڈرتے ڈرتے ان سے بات کرتے تھے۔پھر انھوں نے بڑی بہن کے طور پر خود کو منوا لیا۔اگرچہ انھوں نے تھوڑا عرصہ  ہی ہمارے ساتھ کام کیا ، تاہم احترام کا جو رشتہ بنا، وہ اب تک برقرار  ہے۔  اللہ تعالیٰ خلوص اور احترام کے رشتوں کو سدا قائم رکھے ۔ آمین!

طے یہ ہوا تھا کہ دو دن کے لیے سب کچھ بھول جانا ہے، اور اللہ کی زمین میں گھومنا پھرنا ہے۔پہلا دن جڑواں شہروں کے مضافات کے لیے مختص تھا، جب کہ دوسرا دن کھیوڑہ کے لیے۔

پروگرام کے مطابق ہم مطلوب بھائی کے گھر جمع ہوئے۔مطلوب بھائی کی شخصیت کا احاطہ کرنا اس کالم میں کرنا ممکن نہیں۔بس یوں کہیےکہ:

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہُو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

خوش خوراک، خوش لباس، جانِ محفل، بھرپور زندگی گزارنے کا عزم لیے وہ ہر دم متحرک نظر آتے ہیں۔گرم دمِ گفتگو ۔۔۔ جی ہاں! گفتگو کا ٹمپریچر فشارِ خون کے ساتھ بلند بھی ہو جاتا ہے،لیکن دل شیشے کی مانند صاف،اپنے کام سے جنون کی حد تک لگاؤ،دوسروں کا خیال رکھنے والے،  دنیا دیکھنے کے شوقین، دوستوں کے دوست اور بہت کچھ ۔۔۔

پھر ذوالفقار بھائی ہیں۔ نرم خُو، ملنسار، وضع دار،پختہ کار،روایات و اقدار کے پاسدار،  اپنے کام سے محبت، اور خاندانی تعلقات کا احترام۔ اپنی فیلڈ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اہم ذمہ داریوں پر کام کر چکے ہیں، پھر بھی عاجزی و انکساری  کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اپنے کام کے سلسلے میں ملک کا شاید ہی کوئی کونا ہو جو نہ دیکھا ہو۔یوں بہت سے علاقوں کی تاریخ اور روایات سے خوب واقف ہیں۔

تو مطلوب بھائی کے گھر پر آپا اور ذوالفقار بھائی  ہمارے منتظر تھے۔ہم بھی ہمراہ اپنی اہلیہ کے وقت مقررہ پر  پہنچ گئے۔مطلوب بھائی کے پسندیدہ قہوے کا دور چلا۔غور و فکر شروع ہو اکہ دن کا بقیہ حصہ کیسے گزارا جائے۔  تینوں بھائی علیٰحدہ جا بیٹھے کہ  سوچ بچار کسی نتیجے پر پہنچے۔ لذّتِ کام و دہن کا  معاملہ ہو تو مطلوب بھائی کی بات ہمارے درمیان تقریباً حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔سو ایک کھابا وہ پہلے ہی فائنل کر چکے تھے، جس سے اختلاف ممکن نہیں تھا۔

دوسرے دن کے پروگرام پر تینوں سر جوڑے بیٹھے تھے کہ یکایک  محسوس ہوا جیسے بھونچال سا آ گیا ہے۔ معلوم ہوا غصے میں لال پیلی آپا  دروازے  پر مشقِ ستم فرما رہی ہیں۔کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر برس پڑیں کہ بڑی بہن کو بلاکر بھائی اپنی خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔انھیں کیا معلوم کہ ہم چپکے سے کھیوڑہ جانے کا پروگرام بدل کر “ایبٹ آباد سازش” تیار کر چکے ہیں۔سازش کو  فوری طور پر بے نقاب  کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا، لہٰذا مطلوب بھائی نے یہ کٹھن کام اپنے ذمہ لے لیا۔

خیر، مغرب کا وقت قریب تھا۔ ہم طے شدہ ریستوران کی جانب چل پڑے۔یہ ریستوران شو بز کے ایک معروف آرٹسٹ نے کھول رکھا ہے۔رُوف ٹاپ پر بہت اچھا ماحول بنایا گیا ہے۔کھانے کا معیار بہت اعلیٰ  تھا۔مطلوب بھائی کے انتخاب کی داد دینی پڑی۔اتفاق سے ریستوران کے مالک خود بھی موجود تھے۔ ہم سب ان سے ملے ۔ کھانے اور جگہ کی تعریف کی اور واپسی کی راہ لی۔

یہ بھی پڑھیں: ملاوی کا سفر(5)

اگلی صبح ایبٹ آباد کے لیے روانگی طے تھی۔ایک بار پھر مطلوب بھائی کے گھر پہنچے۔حفظِ ما تقدم کے طور پر ہلکا سا ناشتہ گھر سے کرکے  نکلے تھے۔ ناشتے کا دوسرا مرحلہ یہاں طے ہوا۔سالارِ قافلہ مطلوب بھائی نے گاڑی نکالی، راستے سے ذوالفقار بھائی کو لیا  ۔باقاعدہ ناشتہ ایک اور مقام پر طے تھا، لہٰذا وہ تو کرنا ہی تھا۔ رقیب پرہیز کی تلقین کرتے رہ گئے   لیکن ہم نے روایتی حلوہ پوری پر ہاتھ صاف کیے اورسب پھر سے ہنسی خوشی  آگے چل پڑے۔

ہزارہ موٹر وے نے سفر آسان بنا  دیا ہے ۔ سڑک کے دونوں طرف کے لینڈ سکیپ نے سفر کا لطف دوبالا کر دیا۔موٹر وے سے اُتر کر ہماری پہلی منزل قلندر آباد تھی۔قلندر آباد کی وجۂ شہرت یہاں کے لذیذ  چپل کباب ہیں۔ذوالفقار بھائی کی زبانی ہمیں معلوم ہوا کہ قلندر آباد کی شہرت ایک اور وجہ سے بھی ہے، اور وہ ہے یہاں کا باخ(Bach) کرسچن ہاسپٹل۔یہ ہسپتال 1956 میں دی ایوانجیلیکل الائنس مشن (TEAM) نے قائم کیا تھا، جس کا مقصد قرب و جوار کے مستحق مریضوں کو طبی خدمات فراہم کرنا تھا۔ اکتوبر 2005 کے تباہ کُن زلزلے کے بعد ہسپتال کی خدمات کو مزید وسیع کیا  گیا ہے۔ذوالفقار بھائی کا کہنا تھا کہ اُس وقت قلندر آباد میں سہولیات کا فقدان تھا۔ ہسپتال میں آنے والے مریضوں کے کھانے پینے کی غرض سے پہلے پہل کسی نے کباب بنانے کا کام شروع کیا۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ مقام لذیذ کبابوں کا استعارہ بن گیا۔

ہم نے ذوالفقار بھائی کی قیادت میں ایک معتبر کباب فروش سے نان کباب خریدے۔ طے یہ ہوا کہ ایبٹ آباد کی الیاسی مسجد کے بغلی  چائے خانوں میں سے کسی ایک میں بیٹھ کر وہاں کے مشہور چائے پکوڑوں سے تسکین ِ شکم کا ساماں کریں گے اور کباب بھی نوشِ جاں کیے جائیں  گے۔

ایبٹ آباد یہاں سے لگ بھگ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور مسجد مرکزی شہر سے تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلے پر نواں شہر کے علاقے میں واقع ہے۔ ٹریفک کے رش کی وجہ سے ہمیں الیاسی مسجدتک  پہنچنے میں تقریباً آدھ گھنٹہ لگ گیا۔الیاسی مسجد کے ساتھ ساتھ بہت سے چائے خانے اور پکوڑوں کی دکانیں قائم ہیں۔ہم نے ان میں سے ایک کا انتخاب کیا ۔یہاں کئی قسم کے پکوڑے بنتے ہیں۔

دن کے سوا دو بج رہے تھے اور بھوک چمک اٹھی تھی۔آلو والے اور انڈے والے پکوڑے ہماری میز پر موجود تھے،اور  ان کے ساتھ دودھ پتی! نان کباب پہلے ہی ساتھ لائے تھے۔ہم نے انصاف کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے خالی پلیٹیں واپس کیں اور مسجد کے احاطے کی طرف بڑھ گئے۔

بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی تحقیق کے مطابق الیاسی مسجد 1932 میں تعمیر کی گئی تھی، جسے  ایبٹ آباد کی قدیم ترین مسجد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔مسجد کی انتظامیہ کے مطابق یہاں دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ  اس کی نچلی منزل میں پانی کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے، جس سے وافر مقدار میں پانی دستیاب رہتا ہے۔ہم نے مسجد دیکھی، چشمے کا یخ پانی پیا ،ظہر کی نماز ادا کی، بوتلوں میں پانی بھرا  اور باہر نکل آئے۔

اسلام آباد سے روانہ ہونے سے پہلے ذوالفقار بھائی  ایک فِش پوائنٹ کا پتہ لے کر آئے تھے۔ہم نے اسے گوگل کیا ۔جو روٹ گوگل نے دکھایا ، اس پر ہم یقین کرنے کو تیار نہ تھے، کیونکہ ہمارے ذہن میں ایبٹ آباد سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا۔پھر بھی اللہ کا نام لے کر گوگل کی بات مان لی۔کچھ باتیں ہمارے علم میں نہیں ہوتیں اور ہم اپنے محدود علم کو سب کچھ سمجھ کر بڑی بڑی ڈینگیں مارتے ہیں۔اگر ہم گوگل پر یقین کر سکتے ہیں تو جس نے گوگل بنانے والوں کو بنایا ہے اس پر کیوں نہیں؟

یہ راستہ حویلیاں کو جاتا ہے۔دراصل ایبٹ آباد کو حویلیاں سے ملانے کے لیے تقریباً سترہ کلومیٹر طویل بائی پاس روڈ تعمیر کی گئی ہے۔اسی راستے پر چل نکلے اورسارا راستہ قدرت کی صناعی  کی داد دیتے رہے۔سبحان اللہ! کیا لینڈ سکیپ ہے! جیسے پہاڑ کسی پختہ کار مُصوّر نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوں اور ان پر  نہایت مہارت سے درخت اور پتھر جَڑ دیے ہوں۔یہ راستہ ہمارے لیے نیا تھا، لیکن شاید سارے سفر کی تسکین اسی میں تھی۔اور تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے!

جس فِش پوائنٹ کا ذکر ذوالفقار بھائی نے کیا، وہ حویلیاں کے قریب ہی ہائی وے پر واقع ہے۔وہاں پہنچے ۔دو پہاڑوں کے درمیان واقع اس پوائنٹ پر خوب صورت مناظر دل میں جذب ہو گئے۔اُس پار  سر سبز پہاڑ کے ساتھ ساتھ ہزارہ موٹر وے اور اس پر رواں دواں ٹریفک،  دو پہاڑوں کے درمیان بہتی ندی کے آر پار  آنے جانے والوں کے لیے چئیر لفٹ، جسے  مقامی زبان میں ڈولی کہا جاتا ہے،  اور پھر ہماری جانب ہائی وے اور اس کے ساتھ نظروں کو تازگی بخشتے ہوئے پہاڑ۔غروب ہوتے آفتاب نے افق پر رنگینی بکھیر دی ، جس نے ماحول پر ایک خاص سحر طاری کر دیا تھا۔

مچھلی واقعی بہت لذیذ تھی۔اس پر  قہوے کی چُسکیاں لیں۔مطلوب بھائی نے گاڑی سٹارٹ کی ، حویلیاں سے موٹر وے لی اور اسلام آباد کی طرف رُخ کر لیا۔ راستے میں مطلوب بھائی نے بتایا کہ برسوں پہلے کسی نے اُنھیں بے چین روح  کا نام دیا  تھا۔ ہم نے  نعرہ لگایا کہ ہمارے کالم کا عنوان “بے چین روحیں، قلندرآباد اور الیاسی مسجد” ہو گا۔

4 Responses

  1. زبردست سفر و حضر نامہ
    بے چین روح کو سلام

    کبابوں کی خوشبو یہاں تک آ رہی ھے
    حد ادب 🚩

    خدا کرے زور قلم اور زیادہ
    بزم دوستاں سدا آ باد رہے

    🚩🌟🌺

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *