Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

افکار ۔۔۔ بہاولپور میں اجنبی

بہاولپور میں اجنبی

تبصرہ: جمیل احمد

برادرم مظہر اقبال مظہر کی کتاب “بہاولپور میں اجنبی” کا سرورق پلٹا تو کتاب تقریباً ڈیڑھ نشست میں پڑھ ڈالی۔ لیکن ایک گزارش کر دوں کہ اس تحریر کو کتاب پر تبصرہ نہ سمجھیں، کیونکہ تبصرہ کرنے کی ہمت وہی کر سکتا ہے جسے لکھنا آتا ہو۔ میں صرف وہ بتانا چاہتا ہوں، جو کتاب پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا۔ خیر، “اپنا بندہ” سے بات شروع ہوئی تو آگے بڑھتی چلی گئی۔ میں اس کا سارا الزام مظہر اقبال مظہر کو دوں گا، جنھوں نے اپنے اسلوب بیاں میں تاریخ نگاری کو ہلکی پھلکی داستان کی شکل دے دی ہے۔ ایسی داستان جو قاری کو بہاولپور کی گلیوں اور بازاروں میں لیے پھرتی ہے۔ یونی ورسٹی کی سیر کرواتی ہے، ریاست بہاولپور اور امیران بہاولپور کی زندگی کی جھلک دکھلاتی ہے۔

میں نے مظہر کے ساتھ خود کو ہوٹل کے استقبالیہ کاؤنٹر پر کھڑے دیکھا۔ فرید گیٹ سے نکل کر قدیم بہاولپور میں کھو گیا۔ سرائیکی زبان کی چاشنی محسوس کی۔ “کشمیری ناک” اور پھر “مسئلہ شناخت کا” کے ذریعے مصنف کو بہاولپور اور کشمیر میں یکسانیت تلاش کرتے ہوئے پایا۔ لطف یہ ہے کہ مظہر اقبال نے کسی بھی جگہ قاری کی توجہ بٹنے نہیں دی۔ لہجے کی شگفتگی اور مزاح کی ہلکی آمیزش تحریر کو نہ صرف بوجھل نہیں ہونے دیتی، بلکہ آخری جملے تک قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچا کہ کاش مصنف یوں ایک ہی پیرا گراف میں “ریاض بھائی” کے ساتھ الوداعی تقریب منعقد نہ کرتے، بہاولپور کا کچھ اور احوال بھی بیان کرتے۔ پھر سوچا، جو بھی کرنا تھا، مصنف نے کرنا تھا۔ ہم کون ہوتے ہیں مصنف کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے۔ کتاب کا دوسرا حصہ دو افسانوں پر مشتمل ہے۔ “دل مندر” اور “ایک بوند پانی” دل میں ایک عجیب سی کسک چھوڑ کر گئے۔ مجموعی طور پر مظہر اقبال مظہر ایک ابھرتے ہوئے لکھاری کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ ہمارے لکھنے والوں کے گلدستے میں ایک خوش رنگ پھول کا اضافہ ہیں۔ اللّٰہ کرے زور قلم اور زیادہ!!!

آخر میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن (یو کے) اور اس کے روح رواں عزیزم ظفر اقبال کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ انھوں نے کتاب کو خوبصورت سرورق سے مزین کروا کر عمدہ کاغذ پر بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا، جس سے کتاب کا گیٹ اپ اور معیار بہت اعلیٰ ہو گیا ہے۔ ظفر اقبال کا تدریس اور قلم و قرطاس سے گہرا رشتہ ہے۔ یوں وہ اس میدان کی نزاکتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ امید ہے پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام آئندہ بھی معیاری کتب پڑھنے کو ملیں گی!!!

5 Responses

  1. کتابیں پڑھنے کا شوق تو بچپن سے رہا مگر لکھنے کا سلیقہ مجھے کبھی نہ آ سکا . پھر بھی کتاب سے تعلق نہ ٹوٹا . ایک وقت تھا کہ رات کو اس وقت تک نیند نہیں آتی تھی جب تک کچھ پڑھ نہ لیتا . اور ایک وقت وہ بھی تھا کہ نیند لانے کے لئے کچھ کتب بینی کرنی پڑتی . . مگر عرصہٴ دراز سے اب یہ کیفیات دنیا داری نے چھین لی ہیں . انسان مادی دنیا کی رنگینیوں میں کیسے الجھ جاتا ہے . اور علم و عرفاں سے فاصلے بڑھ جاتے ہیں . کتب بینی ذھن کی تربیت و نشو نما میں اھم کردار ادا کرتی ہے . یہ تبصرہ پڑھ کر مجھے پھر تحریک ہوئی اور کتاب کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی .

    نوجوان لکھاری نے بہاولپور کی تاریخی سیر کروائی ۔۔جزاک الله خیرا .
    الله کرے زور قلم اور زیادہ .
    شکیل احمد شکیل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *