مسعود احمد ملک
چند دن قبل ایک فیس بک گروپ میں جناب ممتاز یعقوب خان صاحب کی د و سطروں پر مشتمل تحریر نے تمام توجّہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ محترم لکھتے ہیں کہ “جس معاشرے کے نوجوان کو تین چار لاکھ کی بھینس بازار سے لے کر گزرتے شرمندگی اور تیس ہزار کا کتا لے کر گزرتے فخر سے سینہ پھولتے محسوس ہو، اس معاشرے کو آپ شعور کے کون سے درجے پر رکھنا پسند فرمائیں گے ؟ “
میری نظر سے گزرنے تک تینتیس احباب نے اس پر اپنے تبصرے پوسٹ کیے۔ کسی نے لکھا زبردست، کسی نے کہا جیو گجرا، کوئی بولا بہت اچھی پوسٹ کی ہے جناب نے، کسی نے کہا گریٹ پوائنٹ۔ ایک محترم نے لکھا حلال میں شرم اور حرام پر فخر، دوسرے نے کہا سنہری الفاظ، کچھ احباب نے مزاحیہ تبصرے کیے جبکہ ایک محترم نے لکھا “بل گیٹس وی مینج رکھی نی” (بل گیٹس نے بھی بھینس رکھی ہوئی ہے)،اور کچھ نے افسوس کا اظہار کیا۔
ہمارے خیال میں جناب ممتاز یعقوب خان صاحب کو اپنے انتہائی سنجیدہ سوال کا تھوڑا بہت جواب تو ان غیر سنجید ہ تبصروں کی صورت میں ہی مل گیا ہو گا اور انہیں اب بحیثیت مجموعی اپنے معاشرے کی شعور ی درجہ بندی میں چنداں مشکل نہ ہوگی۔ بہرحال محترم نے کم از کم ہمیں تو اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ بعض اوقات ایک آدھ جملے یا ہلکے پھلکے انداز میں کہی ہوئی بات نہ صرف گہری اور معنی خیز ہوتی ہے بلکہ دعوت فکر بھی دیتی ہے، اور ایسی صلاحیت کی حامل شخصیات جناب ممتاز یعقوب خان سمیت ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہیں۔
ہماری دھرتی بالخصوص پونچھ اس معاملے میں زرخیز ہے الحمد للہ۔ شعوری درجہ بندی کے بارے میں سوچنے سے پہلے ہمیں خیال آیا کہ یہ تو معلوم ہو کہ” شعور “بالآخرہے کیا ؟ ایک بار پلٹ کر زمانہ طالب علمی میں محترم استادوں کے پڑھائے ہوئے سبق دوبارہ یاد کرنے کی کوشش کی (جناب ممتازیعقوب خان صاحب کا شکریہ جنہوں نے ہمیں اپنے محترم اساتذہ کرام کی یاد تازہ کروا دی)، متعلقہ موضوع پر کبھی کبھا ر پڑھی گئی کتب کے کچھ دلنشیں گوشے ذہن میں ابھرے، کچھ بزرگوں کی اس موضوع پر کی گئی پر مغز گفتگو ذہن میں تازہ ہوئی۔
خود اپنی گزری زندگی پر اس پہلو سے نظر دوڑائی اور کچھ تحقیق اور لغت کا بھی سہارا لیا، تب جا کر معلوم ہوا کہ شعور نام ہے علم، ذہانت، احساس، حکمت، صوابدید، سمجھداری، رواداری، احترام، تعاون، اچھے انتظام، اچھے نداز، خوش اخلاقی، آداب، عقل مندی، اور سلیقہ مندی کا۔
اب آتے ہیں اس بات پر کہ بھینس لے کر چلنے میں شرمندگی اور کتا لے کر چلنے میں فخر کیوں ؟ تو جناب ہمارے خیال میں ہمارے معاشرے میں بہت سی چیزوں، باتوں اور روایات کے معانی، اور ان کی تعریف اور مفہوم میں بتدریج تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ جس طرح کسی لفظ یا محاورے کا تلفظ یا ادائیگی بتدریج غلط العوام اور پھر غلط العام کے مراحل طے کرتا ہوا معاشروں میں قبولیت کا درجہ پا لیتا ہے اور پھر لوگ اصل لغت سے ہٹ کر اسی غلط العام یا غلط العوام کا استعمال معمول بنا لیتے ہیں، حتیٰ کہ صاحب علم و ادب بھی اپنی علمی و ادبی تحریروں تک میں ان کا استعمال کرتے ہیں ،بالکل اسی طرح ہمارے معاشرے میں ہماری اقدار اور روایات بھی بتدریج اپنے معانی و مفہوم تبدیل کر کے غلط العوام اور اب غلط العام بن چکے ہیں۔
ہماری معاشرتی زندگی کے فخریہ پہلو اب شرمندگیوں میں بدل چکے ہیں اور شرمندگیوں والے پہلو فخریہ لبادہ اوڑھ چکے ہیں۔ ہم تو بھینس اور کتے کی مثال پر نوحہ کناں ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں تو اب کتابیں بشمول مقدس کتب فٹ پاتھ پر پڑی ہوتی ہیں، جبکہ جوتے انتہائی صاف اور دیدہ زیب شیشے کی الماریوں میں سجے ہوتے ہیں۔ جی جناب وہی جوتے جو ہم ایک زمانے میں کمرے سے باہر اتار کر استاد محترم کے پاس کتاب پڑھنے جاتے تھے، جی وہی جوتے جو ہماری بزرگ مائیں کافی فاصلے پر اتار کر چشموں یا باؤلیوں سے پانی بھرتی تھیں۔
بات محض بھینس اور کتے یا کتابوں اور جوتے ہی کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں اور بھی بہت کچھ بدل چکا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ بھی غلط العام ہو چکا ہے۔ ایک زمانے میں ،بلکہ ہمارے زمانے میں بڑوں کے برابر نہیں بیٹھا جاتا تھا، جو صرف ادب و احترام کی وجہ سے تھا ،لیکن اب ایسا نہیں۔ استاد محترم کا درجہ روحانی باپ کا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔جس گھر میں مال مویشی ہوں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔
ہمارے بچپن میں اردو کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی جس کا ایک شعر اس زمانے کے موجودہ لوگوں کو اب بھی یاد ہے :
ربّ کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
کیونکہ کسی گھر میں گائے کی موجودگی خوشحالی کی علامت تھی، کہ نہ صرف اس گھر میں دودھ کی فراوانی ہوتی تھی، بلکہ پڑوس میں بھی دودھ کی ضروریات پوری ہوا کرتی تھیں، اور کسی گھر میں غمی خوشی کے مواقع پر گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے دودھ کے ڈولے بھر بھر کے متعلقہ گھر میں لے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دودھ کو فروخت کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔تو ظاہر ہے کہ اس وقت گائے یا بھینس کی قدر و قیمت کچھ اور تھی۔
ایسا بھی نہیں کہ اس وقت لوگوں کے گھروں میں کتا نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر گھر میں ہوتا تھا لیکن گائے بھینس اور کتے کی قدر و قیمت اور اہمیت اپنی اپنی جگہ ہوتی تھی۔ یہی شعوری فرق ہے پہلے وقتوں اور آج کے دور میں:
اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں
کیا کہیں خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں
لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی آج کے دور میں موجود ہے۔ وہ یہ کہ اب بھی کہیں کہیں سہی لیکن گھروں میں گائے بھینسوں کی موجودگی لازمی گردانی جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ اب دودھ کمرشل بنیادوں پر ملتا ہے۔
ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان بھر میں تعلیمی معیار کے لحاظ سے آزادکشمیر کا لٹریسی ریٹ 74% جبکہ ضلع پونچھ کا لٹریسی ریٹ 68.69% ہے۔ لوکل محکمہ جات سے لیکر اعلیٰ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں آزاد کشمیربالخصوص پونچھ کی شخصیات نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ہمارے بچے اور خصوصاً بچیاں اعلیٰ تعلیم کی طرف مائل ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں اب بھی ایمانداری اور دیانتداری کا عنصر موجود ہے۔ تبھی تو بینک سے غلطی میں ملنے والی زائد رقم فوراً لوٹا دی جاتی ہے۔ کسی حادثے پر ہمارے نوجوان اب بھی اپنی پوری صلاحیت اور طاقت کیساتھ خود کو وقف کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی دوسروں کی مدد اور خیر و بھلائی کا جذبہ موجود ہے۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کی غمی خوشی میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر محترم ممتاز یعقوب صاحب جیسی درد دل رکھنے والی شخصیات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو معاشرے کے کردار اور روّیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور کوئی شعوری حادثہ دیکھتے ہی فوری طور پر اس کی نشاندہی کرتے ہوئے دوسروں کے ضمیر کو بھی جگاکر دعوت فکر دیتے ہیں ۔ یہی شعور کی بہترین درجہ بندی ہے. بقول شاعر……
حادثے بھی شعور رکھتے ہیں
ڈھونڈ لیتے ہیں غم کے ماروں کو
مسعود احمد ملک
مسعود احمد ملک ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے وابستہ ہیں۔ طویل سیاسی کیرئیر رکھتے ہیں۔ عمدہ ادبی ذوق کے مالک ہیں، مختلف اخبارات و جرائد میں سماجی و اصلاحی موضوعات پر لکھتے ہیں۔