Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

بھوت کشتیوں کا صحرا

بھوت کشتیوں کا صحرا

جمیل احمد

قازقستان اور ازبکستان کی سرحد پر، وسط ایشیا کے وسیع میدانوں میں جو کبھی سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتے  تھے، آج آپ کو  ماہی گیری کاپھیلا ہوا ایک  بحری بیڑا زنگ آلود حالت میں پڑا نظر آئے گا, جسے اب بھوت کشتیوں کا صحرا (The Desert of Ghost Ships) کہا جاتا ہے۔یہ جگہ  کبھی ساحل ہوا کرتی تھی۔اب وہاں  پانی ماضی کا قصّہ بن چکا ہے اور اسی طرح مچھلیاں بھی۔ماہی گیری کی یہ کشتیاں اب اس جگہ سے درجنوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں جو کبھی دنیا کا چوتھا سب سے بڑا خشکی سے گھرا ہوا  سمندر ۔۔۔ بحیرۂ ارال ۔۔۔تھا۔ بحیرۂ ارال (Aral Sea)، جو ایک بہت بڑی جھیل کی طرح تھا، اب  اس کا زیادہ تر حصہ ایک نمکین، زہر آلود بنجر زمین پر مشتمل ہے جسے صحرائے ارالکم کہتے ہیں۔

کسی زمانے میں بحیرہ ارال کے پانیوں نے ماہی گیری کی صنعت کو سہارا دیا تھا ،جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا تھا۔موئناق کا قصبہ ماہی گیری کے ایک بہت بڑے بیڑے اور ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلیاں محفوظ کرنے  کی صنعت کا مرکز بن چکا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ازبکستان کے کپاس کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے بحیرۂ  ارال سے ملنے  والے دریاؤں کا رخ موڑنے کے متنازعہ سوویت فیصلے نے بحیرہ ارال کو پانی کی کمی کا شکار کردیا۔ یوں یہ جھیل 1960 کی دہائی میں بخارات بن کر ختم ہونا شروع ہوئی۔

 جیسے جیسے پانی سکڑتا گیا، سمندر کھارا ہوتا گیا، اور کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے بڑھتے ہوئے ارتکاز کی وجہ سے مچھلیاں مرنے لگیں۔

2015 میں ایک نشریاتی ادارے نے سابق ماہی گیر خوجابے کا انٹرویو کیا، اور موئناق کے بارونق ماضی کے بارے میں بات کی۔ خوجابے کے مطابق وہاں ماہی گیر، باورچی، ملاح اور انجینئر ہوتے تھے۔ جب سمندر سکڑنا شروع ہوا تو بڑے بحری جہاز کم گہرے پانی کی  گودیوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ ایک ایک کر کے وہ کیچڑ  میں پھنستے  گئے، پھر کیچڑ ریت بن گئی جو اب آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔

موئناق اور ارالسک جیسے قصبوں کو زبردست نقصان پہنچا۔ یہ  بحری بیڑے  سوویت یونین کی ماہی گیری کی صنعت کا تقریباً چھٹا حصہ تھے۔ ان کے غیر فعال ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا، اور بہت سے مقامی لوگ دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔

خوجابے کے مطابق وہ ٹرالر جو  40 آدمیوں کو لے جا سکتے تھے – اب موئناق کی بندرگاہ   کے کنارے پر زنگ آلود پڑے ہیں ۔ بھوتوں کا بحری بیڑا اب ماضی کے سمندر کی یاد دلاتا  ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں اب بھی پودے اُگتے ہیں – سمندر کے سکڑنے سے علاقے کی آب و ہوا پر بھی تباہ کن اثر پڑا ہے – اب مقامی مال مویشی کشتیوں کے زنگ آلود ڈھانچوں کے آس پاس گھومتے نظر آتے  ہیں۔

سمندر کے کنارے وہ جگہیں جن پر بندرگاہوں  اور مچھلیاں محفوظ کرنے کے مراکز کے طور پر فخر کیا جاتا تھا، اب خالی اور ویران پڑی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پرانی کہانیاں نئے سبق

جن قصبوں کا کبھی ان ساحلی بحری بیڑوں پر انحصار تھا  وہ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ارالکم کے صحرا  سے اٹھنے والی زہریلی دھول کو ان مسائل کی بڑی وجہ  سمجھا جاتا ہے۔

ممکن ہے  آنے والے سالوں میں، انسان کی اس خود ساختہ تباہی کا ازالہ کرنے کا خواب  شرمندۂ تعبیر ہو جائے۔ ہو سکتا ہے وہاں کے لوگ ان کشتیوں کو پھر سے پانیوں میں تیرتا ہو دیکھیں۔قازقستان میں دریاؤں کے پانی کا رُخ دوبارہ  شمالی بحیرۂ  ارال کی طرف موڑنے  سے نمکیات کے ارتکاز میں کمی آئی ہے اور مچھلیاں پھر سے نظر آنے لگی  ہیں۔عین ممکن ہے کہ  آنے والی دہائیوں میں –  سنجیدہ  کوششوں کے بعد – پانی ارال کے کھوئے ہوئے بیڑے کو پھر سے اپنی آغوش میں لے لے۔

2 Responses

  1. Interesting information about Ghost ships of old USSR. Environmental changes affect the areas and climate.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *