جمیل احمد
اس نے لکڑی لی، اس میں ایک سوراخ بنایا، پھر ایک ہزار دینار اس میں ڈالے اور اس کا منہ بند کر دیا۔پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے، اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہا تھا کہ ضامن کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کافی ہے، وہ تجھ پر راضی تھا، اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا جواب بھی میں نے یہی دیا کہ اللہ تعالیٰ گواہ کی حیثیت سے کافی ہے تو وہ تجھ پر راضی ہوگیا تھا، اور تو جانتا ہے کہ میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری مل جائے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض معین مدت پر پہنچا سکوں لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ملی۔ اس لئے اب میں اس کو تیرے ہی سپرد کرتا ہوں کہ تو اس تک پہنچا دے، چنانچہ اس نے وہ صندوق کی شکل میں لکڑی جس میں رقم تھی، ایک خط لکھ کر کہ میں آپ کا یہ قرض واپس کر رہا ہوں اس یقین کے ساتھ دریا میں بہا دی کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کو ضائع نہیں کرے گا۔ اب لکڑی دریا میں تھی اور وہ شخص واپس ہوچکا تھا۔
یہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کا قصہ ہے، جس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگا تھا۔وہ قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوا اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری یعنی کشتی وغیرہ کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے، اور اُس کا قرض ادا کر دے، لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔جب کوئی چارہ نہیں رہا تو اس نے رقم لکڑی میں رکھ کر اسے دریا میں بہا دیا۔اسے اب بھی فکر تھی کہ کسی طرح کوئی کشتی ملے جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: احساس شہریت
دوسری طرف وہ شخص جس نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں بندرگاہ آیا کہ ممکن ہے کوئی جہاز اس کا مال لے کر آیا ہو، لیکن وہاں اسے ایک لکڑی ملی، وہی جس میں مال تھا جو قرض لینے والے نے اس کے نام بھیجا تھا۔ اس نے وہ لکڑی اپنے گھر کے ایندھن کے لئے لے لی، پھر جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی۔
کچھ دنوں بعد وہ شخص جب اپنے وطن پہنچا تو قرض خواہ کے یہاں آیا اور دوبارہ ایک ہزار دینار اس کی خدمت میں پیش کر دیے، اور کہا کہ بخدا میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں، لیکن مجھے اپنی کوششوں میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پھر قرض خواہ نے پوچھا، اچھا یہ تو بتاؤ، کوئی چیز بھی میرے نام آپ نے بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کا وہ قرض ادا کردیا جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا، چنانچہ وہ شخص اپنے ہزار دینار لے کر خوشی خوشی واپس ہوگیا۔
یہ قصہ نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا ہے جس کا ذکر صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ملتا ہے۔میں نے خود سے سوال کیا، اس قصے سے ہمیں کیا سبق ملا؟ جواب ملا، وعدے کی پاسداری اور اعتماد پر پورا اترنا۔ پھر سوال آیا کہ آخر وعدہ نبھانے اور دوسروں کے اعتماد پر پورا اترنے میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ تلاش کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ کردار کی ایسی صفات ہیں جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ صفات ہمیں ایسی شخصیت میں ڈھال دیتی ہیں جس پر لوگ بھروسہ کر سکیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ اچھے کردار کی سب سے پہلی اور اہم خوبی ایک فرد کا قابل بھروسہ ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پروفیشنلزم اور ہماری ساکھ
کسی شخص کا بھروسے اور اعتماد کے قابل ہونا ایک اچھائی اور عمدہ اخلاقی قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ قابل بھروسہ فرد وہ ہوتا ہے جس پر آپ اعتبار کر سکیں اور آپ کو یقین ہو کہ وہ آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائے گا۔ قابل بھروسہ فرد اپنی ذمہ داری ہمیشہ بہترین طریقے سے سر انجام دیتا ہے۔ وہ آپ کی توقعات پر پورا اترتا ہے، ایسے شخص کے ساتھ آپ اپنے راز اور پریشانیاں بلاجھجھک بیان کر لیتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کی اجازت کے بغیر یہ باتیں کبھی دوسروں سے بیان نہیں کرے گا۔ ایسا شخص اپنے قول و عمل سے دیانت داری کا ثبوت دیتا ہے، چوری اور دھوکہ دہی سے اجتناب کرتا ہے، قول و فعل کے تضاد سے اپنے آپ کو بچاتا ہے، خلوت و جلوت میں درست کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، اچھی پہچان بنا لیتا ہے، اپنے خاندان، احباب اور ملک و قوم کے ساتھ وفاداری نبھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔
غور کیا جائے تو ہر مذہب اور ہر معاشرے میں اس شخص کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو دوسروں کے اعتماد، توقعات اور بھروسے پر پورا اترے۔ رسالت مآبؐ کی سیرت طیبہ سے بہتر مثال اور کس کی ہو سکتی ہے، جن کے متعلق اللہ نے اپنی آخری کتاب میں مہر لگا دی کہ “اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔” آپﷺ نبوت سے پہلے ہی صادق و امین تھے۔ قریش اور کفار مکہ لاکھ دشمنی کے باوجود آپٖؐ کی صداقت اور امانت کے مکمل قائل تھے۔ آپؐ کی ان صفات کا بدترین دشمن بھی اقرار کرتے تھے۔ بعثت کے بعد جبکہ لوگ آپؐ کے جانی دشمن بن گئے، اس کے باوجود اپنی قیمتی دولت آ پ ؐکے علاوہ کسی اور کے پاس بطور امانت رکھنا پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ آپ ؐ کے علاوہ اور کوئی اس لائق نہیں کہ اس پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کیا جا سکے۔
پھر اللہ نے قرآن مجید میں جا بجا عہد و اقرار پورے کرنے، امانت داری اور انصاف سے فیصلے کرنے کی تاکید کر کے انسان کو ایک مستحکم اور قابل بھروسہ شخصیت بننے کی راہ دکھلائی ہے۔قابل بھروسہ ہونا یقیناً انفرادی طور پر ہمیں کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرتا ہے۔اگر ہم نے بطور ملک وقوم اقوام عالم میں اپنا وقار بڑھانا ہے تو پہلا قدم یہی ہو گا کہ وہ تمام صفات اپنے اندر لے آئیں جو قابل بھروسہ شخصیت بننے کے لیے ضروری ہیں۔
اس کے لیے ہمیں گھر اور سکول کی سطح سے تربیت کے عمل پر توجہ دینی ہو گی۔گھر ہو یا سکول، سکھانے کا سب سے مؤثر طریقہ تو اپنےآپ کو رول ماڈل بنا کر پیش کرنا ہے۔اس کے بعد بچوں کو ایسے تاریخی کرداروں کے واقعات سنائیں جن سے بھروسہ اور اعتماد قائم کرنے کا سبق ملتا ہو۔ڈرامے، تمثیل یا کردار نگاری سے مدد لیں اور کلاس روم کے لیے ایسی عملی سرگرمیاں تخلیق کریں جن سے بچوں کی اٹھان قابل بھروسہ شخصیت کے طور پر ہو، کیوں کہ شخصیت بنے گی تو پائیدار کامیابی کی راہ ہموار ہو گی۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses