جاوید اقبال راجا
شام ڈھلے ایک بڑھیا اپنا مرغا بغل میں دابے گاؤں والوں سے ناراض ہو کر جا رہی تھی۔
کسی نے پوچھا، ‘ اماں کہاں چلی؟’
بولی ، ‘اب میں دیکھتی ہوں گاؤں والے صبح کیسے جاگتے ہیں۔ بانگیں دے دے کر جگانے والا مرغا میں ساتھ لیے جا رہی ہوں۔’
کچھ ایسے ہی احساسات اس وقت میرے بھی ہیں۔ کیا بنے گا FDE کا ،جب میرے جیسا ماہر تعلیم یہاں نہیں رہے گا۔ مجھے تو ہر طرف تاریکی ہی تاریکی نظر آرہی ہے۔
گاؤں کے چوپال میں پھتو راکٹ نے اپنی نیم وا نشیلی آنکھوں سے لوگوں کو دیکھ کے کہا، ‘آہستہ آہستہ دنیا سے بڑے بڑے لیڈر جا رہے ہیں۔ ان دنوں میری طبیعت بھی کچھ ناساز رہتی ہے۔’
سن 2013 ایسا سال ہے، جس میں ملک کے نامی گرامی لوگ اپنے عہدوں سے سبک دوش ہو جائیں گے۔ جناب زرداری صاحب، جناب افتخار محمد چوہدری صاحب، جناب اشفاق پرویز کیانی صاحب اور میں یکے بعد دیگرے گھروں کو چلے جائیں گے۔ ہمارے بنا نجانے اس ملک کا کیا بنے گا ۔مجھے ملک، عدلیہ، آرمی اور محکمہ تعلیم کے بھیانک مستقبل سے خوف آتا ہے ۔یوں لگتا ہے جیسے میرے بعد تعلیم کی کشتی کسی بھنور میں پھنس جائے گی۔
چونکہ میں ماہر تعلیم ہوں،آپ میں سے اکثر کی رائے مجھ سے ملتی ہے۔ اس لیے میں چند چیدہ چیدہ بنیادی اصول آپ کو بتائے دیتا ہوں، جنہیں اپنا کر آپ ڈوبتی کشتی بچا سکتے ہیں ۔یہ میری طویل تدریسی زندگی کا نچوڑ ہے۔ اگر آپ میں سے کسی کے پاس نوٹ بک ہے تو پلیز میرے یہ اقوال زریں نوٹ فرما لیں۔
میرے مشاہدے میں ایک بات آئی ہے، اور اس سے میں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں، آندھی آئے یا طوفان، ہفتے میں ایک یا دو دن سرکاری چھٹی ضرور ہوگی۔ میری دوسری بات بھی سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ چونکہ سونا مہنگا ہے، اس لیے با امر مجبوری میں آپ کو عام قلم سے بھی لکھنے کی اجازت دیتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ جب تک آپ ماتحت رہیں گے، آپ کو آفیسر ہمیشہ دو نمبر ملیں گے۔ نا اہل، نا تجربہ کار، سوجھ بوجھ سے عاری ۔لیکن جونہی آپ خود آفیسر بنیں گے، یہ پیمانہ اُلٹ جائے گا۔ اور تیسری اہم بات بھی میرے ذاتی تجربات کا نچوڑ ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ جس دن آپ نہیں جائیں گے، سکول دھڑام سے گر جائے گا۔ میرا بھی یہی خیال تھا ،لیکن سات دن کی ورکشاپ کے بعد، میں جب سکول پہنچا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سکول نہ صرف پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا ،بلکہ گملوں میں نئے پھول بھی کھلے ہوئے تھے۔
اور ایک راز کی بات؛آدمی چاہے کتنا ہی نااہل کیوں نہ ہو، کامیابی سے سروس پوری کر لیتا ہے۔ یقین نہ آئے تو مجھے دیکھ لیں ۔میں یہ سوچ سوچ کر ڈرتا رہا کہ اگر افسران بالا کو پتہ چل گیا کہ ایک ایسا آدمی جسے کچھ نہیں آتا، ہمارے محکمے میں ہے تو یک بینی دو گوش چلتا کریں گے۔ لیکن اب میں دھڑلے سے اپنی نااہلی کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری نااہلی کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ جناب پروفیسر رفیق طاہر نے بہت کوشش کی، میں ان کے ساتھ بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ٹریننگ کام کروں، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں ان کی بات مان لیتا تو دنیا کے بیشتر ممالک گھوم آتا اور اس وقت آپ کے سامنے اپنی تقریر کا آغاز کچھ اس طرح کرتا :
معزز خواتین و حضرات !امریکہ کے سیکرٹری تعلیم نے نیویارک کے سب سے مہنگے ہوٹل کے انتہائی قیمتی اور گداز صوفے پر بیٹھتے ہی میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کے کہا :
Well done Raja! I really appreciate your ideas!
اور پھر میں اپنے آئیڈیاز کی آپ کے سامنے تشریح کرتا۔ لیکن میں نااہل آدمی تھا ۔حالات کی رنگینیوں کو نہیں بھانپ سکا ،اور پھر پچھتاتا رہا ۔بعد میں جب چڑیاں چگ چگ کر کھیت کے سارے دانے ختم کر گئیں، تو میں نے رفیق طاہر صاحب سے کہا ، ‘یار مجھے بھی امریکہ اور یورپ بھیج دو۔’ کہنے لگے صومالیہ بھیج سکتا ہوں۔ ظاہر ہے مجھے خاموش کرانے کا اس سے اچھا جواب اور کیا ہو سکتا تھا ۔
میں بطور میٹرک ان ٹرینڈ ٹیچر بھرتی ہوا تھا ۔میری تنخواہ 110 روپے تھی ۔میں پہلی تنخواہ پر ایک میز اور کرسی خرید کر لایا تھا اور پھر ساری زندگی میز اور کرسی پر براجمان رہا ۔لوگ سروس کے آخر میں پرنسپل بنتے ہیں۔ میں ‘جماندڑو’ پرنسپل ہوں۔ بہت کم عرصہ میں نے ماتحتی کی ہے۔ ماتحتی بھی ایسی، اگر پرنسپل کی کوئی بات اساتذہ کو اچھی نہ لگتی تو گھور گھور کر مجھے ہی دیکھتے تھے۔
لوگ غریب کہلوانے پر ہچکچاتے ہیں ۔میں اپنی غربت پر ناز کرتا ہوں۔ الفقر فخری۔ لوگ کہتے ہیں غربت ترقی کا راستہ روکتی ہے، لیکن ایک دن غربت نے میرے کان میں سرگوشی کی ،یہ سب غلط کہتے ہیں ،تو نہ ماننا ۔میں نے غربت کی بات مان لی اور آج میں امیر ترین آدمی ہوں۔امارت صرف پیسوں کی فراوانی سے نہیں ہوتی۔ مجھ پر میرے رب کا اتنا فضل ہے کہ ہمارے گھر میں کبھی فاقہ نہیں ہوا۔ میرے بچوں میں سے کوئی معذور نہیں ۔میری بیوی اتنی اچھی ہے ،اتنی اچھی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ ایسی ایک اور کر لوں۔ میرے اللہ نے شہر میں مجھے اپنا گھر دیا ہے، اور تین بار مجھے اپنا گھر دکھایا ہے۔ میں کسی کا مقروض نہیں ،مجھے کوئی بیماری نہیں، میری بچیاں اپنے اپنے گھروں میں انتہائی آسودہ ہیں ۔مجھے اتنے محبت کرنے والے دوست دیے ہیں کہ بس، میں اسکولوں میں جاتا ہوں اور لوگ میرے ہاتھ چومتے ہیں۔
میری نواسی نواسے جب میرے بیڈ پر مجھ سے کشتی لڑتے ہیں اور کلکاریاں مارتے ہیں، تو میں اس وقت آسمان کی طرف دیکھ کے کہتا ہوں ،مولا کیا جنت میں اس سے بھی زیادہ خوشیاں ملیں گی؟
میں جس جس سکول میں بطور پرنسپل رہا ہوں، وہاں کے کلاس فور سے لے کر بڑے گریڈ کے ٹیچر تک سب میرے دوست ہیں۔ آج وہ دن ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ اپنی باتیں آپ سے شیئر کروں ،لیکن مجھے ‘میں میں’ سے ہمیشہ چڑ رہی ہے ۔میں اگر ‘میں میں’ کرنا چاہوں تو شاید بکریاں بھی مجھے اپنا استاد مان لیں ۔اسی لیے میں نے کیا کیا ،میں نے کون سے تیر مارے، میرے جانے سے کیا ہوگا ،سب فضول۔ میں بڑا دیانتدار تھا، غلط۔ لوگ مجھے دیکھ کر اپنی گھڑیاں ٹھیک کرتے تھے، جھوٹ۔ میں نے اپنے کام میں کبھی ڈنڈی نہیں ماری، مبالغہ۔ میں سب کے لیے رول ماڈل ہوں بالکل نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چھائیں یونگ، تیسری اور آخری قسط
میں عام گنہگار انسان ہوں ۔البتہ ایک اضافہ ہے مجھ میں۔ میں ہر آدمی کا احترام کرتا ہوں اور ہر ایک سے محبت کرتا ہوں۔ آپ احباب نے میرے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے میں اس وقت سے حیران پریشان بیٹھا ہوں کہ یارو میں تو بڑی چیز ہوں۔ میں خواہ مخواہ چھوٹے چھوٹے لوگوں کو جھک جھک کر ملتا رہا ہوں۔ اللہ، میرا کتنا وقت ضائع ہوا ہے۔ آج میں شاباش دیتا ہوں اپنی اداکاری کو:
میں ندیم وہ نہیں ہوں جو دکھائی دے رہا
میرا فن میرا بدن ہے میرا غم میرا لہو ہے
سودا کے شعر میں تحریف کر کے عرض ہے کہ:
سودا جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں میں
کیا جانئے تو نے مجھے کس آن میں دیکھا
میرے لیے ممکن نہیں کہ میں فردا ًفرداً آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کروں۔ کاش !میں اپنے دل کے ہزار ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا۔ آپ جس محبت، جس پیار اور جس خلوص سے میری رخصتی کی تقریب میں تشریف لائے ہیں، بھول جانے کے قابل نہیں ہے۔ اللہ قسم! مجھے آپ سب اور’ بابل دا ویڑہ’ بہت یاد آئے گا۔
میرے دل کی جو حالت ہے بیاں میں کر نہیں سکتا
خلش کیا ہے کسک کیا ہے عیاں میں کر نہیں سکتا
تجھے سوچوں، تجھے دیکھوں ،تجھے چاہوں ،تجھے پاؤں
تمہاری یاد میں ہمدم ،میرا جی بھر نہیں سکتا
میں کیسے چھوڑ دوں تم کو یہ رشتے توڑ دوں کیسے
میں ایسے کر تو سکتا ہوں مگر میں کر نہیں سکتا
تمہی میرا اثاثہ ہو تمہی ہو زندگی میری
تمہیں اب اپنے پیکر سے جدا میں کر نہیں سکتا
میری سانسوں میں رہتی ہیں تمہارے پیار کی یادیں
یہ یادیں زندہ ہیں جب تک کبھی میں مر نہیں سکتا
ضرب تم کو میں کیسے دوں میں خود تقسیم ہوتا ہوں
جمع تم ہو نہیں سکتے نفی میں کر نہیں سکتا
یہ ساعتیں ہجر کی جاوید میرے ہاتھوں میں لکھی تھیں
یقیں میں کر نہیں سکتا گماں میں کر نہیں سکتا
(یہ تقریر 14 مئی 2013 کو اپنی ریٹائرمنٹ کی الوداعی پارٹی میں جناب جاوید اقبال راجہ نے کی۔ اس موقع پر جوائنٹ سیکرٹری تعلیم جناب پروفیسر محمد رفیق طاہر، ڈائریکٹر جنرل وفاقی نظامت تعلیمات ڈاکٹر شہناز انجم ریاض، ایف ڈی ای کے ڈائریکٹرز، ایریا ایجوکیشن آفیسرز، پرنسپلز اور ٹیچرز کی کثیر تعداد موجود تھی)
جاوید اقبال راجا
جاوید اقبال راجا شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور متعدد نصابی کتب کے ساتھ ‘برف پگھلنا ضروری ہے’، ‘میں یہاں ہوں’، ‘مرد درویش’ اور سفرنامہ حج ‘قافلے دل کے چلے’ کے مصنف ہیں۔ آپ تدریس اور تعلیمی نظم و نسق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ خطاط بھی ہیں اور اس فن میں ہزاروں لوگ ان سے مستفید ہو چکے ہیں ۔
4 Responses
کیا کہنے ❤❤❤
بہت شکریہ
نام پورا لکھا جائے۔
علامہ جاوید اقبال راجا
اس کی منظوری لینا ہو گی 😃