Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ایک نشست بچوں میں کردار سازی اور مہارتوں کی نشو و نما پر

ایک نشست بچوں میں کردار سازی اور مہارتوں کی نشوونما پر

جمیل احمد

یہ ہم خیال احباب کی نشست تھی، جس کا موضوع بچوں میں کردار سازی اور مہارتوں کی نشوونما تھا۔ کچھ عرصہ قبل باہمی گفتگو کے دوران میں سوال پیدا ہوا کہ ہمارے امتحانی نظام میں بچے بعض اوقات سو فی صد یا اس کے قریب نمبر حاصل کر لیتے ہیں لیکن ہمارے نصاب تعلیم میں جو حاصلات تعلم یا مہارتیں بیان کی گئی ہیں، بچوں میں عملاً ان کا مظاہرہ کم کم ہی نظر آتا ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ نمبروں کی دوڑ کے اس دور میں کردار سازی ترجیحات میں بہت پیچھے رہ گئی ہے، جس کا عکس ہمیں معاشرے میں جا بجا نظر آتا ہے۔ سوالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے تعمیر شخصیت فورم نے “بچوں میں کردار سازی، مہارتوں کی نشو و نما اور ہمارا نظام تعلیم” کے موضوع پر راولاکوٹ میں گروپ ڈسکشن کا اہتمام کیا۔اس نشست میں ماہرین تعلیم، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے سربراہان، جرنلسٹس اور کمیونٹی کے ممبران نے شرکت کی۔ ڈسکشن کی اچھی بات یہ تھی کہ سب ہی شرکاء نے موضوع کی اہمیت کو محسوس کیا اور کھل کر بحث میں حصہ لیا۔

یہ احساس نمایاں نظر آیا کہ ہماری تعلیمی پالیسیاں ہوں یا نصاب تعلیم ، ان سے معدودے چند افراد ہی آگاہ ہوتے ہیں۔ اساتذہ ، والدین اور معاشرے کی اکثریت صرف ٹیکسٹ بکس یعنی درسی کتب سے واقف ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نصاب تعلیم قومی تعلیمی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہے؟ درسی کتب نصاب تعلیم کی روح کی درست عکاسی کرتی ہیں؟ جس قدر درسی کتب میں لکھا ہے وہ کلاس روم میں بچے تک منتقل ہوتا ہے؟ اور جو کچھ بچے تک منتقل ہوتا ہے وہ اسے جذب کر پاتا ہے؟ ان سوالات کا اطلاق یکساں طور پر بچوں میں کردار سازی اور مہارتوں کی نشو ونما پر ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پریزینٹیشنز تیار کی گئی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۲۰۱۷ کی مجوزہ تعلیمی پالیسی میں کردار سازی پر کھل کر بات کی گئی ہے۔اگرچہ یہ پالیسی ڈرافٹ کے طور پر منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے، البتہ اس کی منظوری اور نفاذ کے حوالے سے ابھی تک گو مگو کی کیفیت ہے۔بچوں میں مہارتوں کی نشو و نما کی بات کی جائے تو مروجہ نصاب تعلیم خاصی تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالتا ہے، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ نصاب تعلیم میں بیان کردہ مہارتیں کس حد تک حقیقت پسندانہ اور بچوں کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہیں۔قارئین کی دلچسپی کے لیے ڈسکشن کی بنیاد پر مرتب کردہ سفارشات پیش کی جا رہی ہیں:

الف: کردار سازی

1۔ قومی سطح پر کردار کی تعریف متعین کی جائے اورکردار کے حوالے سے رول ماڈل کا معیار طے کیا جائے۔

2۔  نصاب تعلیم میں کردار سازی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔

3۔ درسی کتب میں نصاب تعلیم کے رہنما اصولوں کے مطابق کردار سازی کی عکاسی کی جائے۔

4۔ درسی کتب میں بالعموم اور اردو، انگریزی، سلامیات اور معاشرتی علوم کی درسی کتب میں بالخصوص بچوں کی کردار سازی کو مد نظر رکھ کر بامقصد سرگرمیاں شامل کی جائیں۔بچوں کی سطح کے مطابق اچھے مسلمان اور اچھے شہری سے متعلق خصوصی ابواب درسی کتابوں میں شامل کیے جائیں۔

5۔  درسی کتب میں دیے گئے مواد کو حتی الامکان عملی زندگی سے مربوط کیا جائے۔بچوں میں صحیح اور غلط کی تفریق کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔

6۔  کلاس روم میں تخلیقی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور رٹا سسٹم سے ممکنہ حد تک گریز کیا جائے۔اس مقصد کے لیے کلاس روم میں طریقہ تدریس میں موزوں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہو گی۔

7۔  کردار سازی اور تعمیر شخصیت کے مختلف پہلووں کو جائزہ اور امتحانات کے نظام کا حصہ بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے کردار کے منتخب پہلووں کا مسلسل جائزہ لیا جائے اور ان کی مارکنگ کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں

8۔ حسن کردار کی نسبت سے اساتذہ بچوں کے لیے خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کریں۔تربیت اساتذہ کے پروگرام میں متعلقہ مضامین کی تربیت کے ساتھ ساتھ کردار کی نشو و نما کو لازمی حصہ بنایا جائے اور اس سلسلہ میں اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کی جاتی رہے۔

9۔ کردار سازی کی تربیت اور جائزہ کے لیے ماسٹر ٹرینر اور مینٹور تیار کیے جائیں جو ضلعی اور مقامی سطح پر اساتذہ کو رہنمائی مہیا کر سکیں۔

10۔  کردار سازی اور اس کے جائزہ کے حوالے سے رہنما کتب تیار کی جائیں اور تعلیمی اداروں میں ان کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔

11۔  تعلیمی ادارے کردار سازی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کمیونٹی کے ساتھ مل کر آگاہی مہمات کا اہتمام کریں تاکہ والدین اور کمیونٹی کے تعاون سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

ب: بچوں میں مہارتوں کی نشو نما

1۔  ہر تعلیمی درجہ میں درکار مہارتوں کا تعین بچوں کی ذہنی سطح اور قومی ضروریات کو مد نظر رکھ کر کیا جائے۔

2۔  درکار مہارتوں پر عبور حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عملی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے، اور بچوں کو عملی زندگی میں ان مہارتوں کا اطلاق کرنا سکھایا جائے۔

3۔  جائزہ اور امتحانات کے عمل میں مہارتوں کے عملی استعمال کا پہلو مد نظر رکھا جائے۔

4۔  تدریس کے مقاصد اور حاصلات تعلم تک موثر انداز میں پہنچنے کے لیے تربیت اساتذہ کے پروگرام کو مزید بہتر بنایا جائے۔

5۔  تدریسی مقاصد اور حاصلات تعلم تک پہنچنے کے لیے تعلیمی اداروں کے سربراہان کو تکنیکی رہنمائی اور مدد فراہم کی جائے۔

6۔  تعلیمی اداروں میں کیرئیر کونسلنگ کا اہتمام کیا جائے اور بچوں کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر ان کی مہارتوں کی نشو و نما کی جائے۔

7۔ بچوں کی مہارتوں کی نشو و نما ، ان کی صحت اور دیگر عادات کے حوالے سے والدین کے ساتھ موثر رابطہ قائم کیا جائے۔

8۔ فن لینڈ اور جاپان کی طرز پر کم از کم ابتدائی جماعتوں میں امتحانات کے عنصر کو کم سے کم کرکےان کی ذہنی نشو ونما، اخلاقیات اور مہارتوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کی جائے۔

9۔  تعلیمی اداروں کے باہمی روابط بڑھائے جائیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کر سکیں۔

10۔  2017 کی مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی کی منظوری اور اس کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ منظور شدہ پالیسی اور نصاب تعلیم سے سربراہان ادارہ جات اور اساتذہ کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس کی روشنی میں تدریس اور تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دیں۔

11۔ مجوزہ نصاب تعلیم کو حتمی شکل دینے سے قبل اس پرمختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین سے وسیع مشاورت کی جائے تاکہ اس کے قابل عمل اور موثر ہونے کے بارے میں رائے قائم کی جا سکے۔

4 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email