جمیل احمد
ایک دن سر راہ میری ملاقات ایک پرانے ہم جماعت سے ہوئی۔ ہم نے تقریباً 30 سال سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا۔
وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور بہت عرصہ بعد مجھے دوبارہ دیکھ کر گرم جوشی سے ملا۔ لیکن سچ پوچھیں تو اندر ہی اندر میں اپنے مقابلے میں اس کی حیثیت سے متاثر نہیں ہوا۔میرے انداز سے اس کا اظہار بھی ہو رہا تھا۔
ہم نے ایک دوسرے کے فون نمبروں کا تبادلہ کیا۔تاہم مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا ہے۔
میں نے اسے کہا کہ میں اسے اپنی بالکل نئی رینج روور گاڑی میں گھر چھوڑ آؤں گا، لیکن اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے پہلے ہی اپنی ہونڈا ایکارڈ 2001 منگوا لی ہے۔
دوسرے دن میں نے اسے لنچ پر اپنے گھر بلایا۔ میں اپنا شاندار گھر دکھا کر اسے متاثر کرنا چاہتا تھا، اور دکھانا چاہتا تھا کہ میں کتنا کامیاب آدمی بن چکا ہوں۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ میں ممکنہ طور پر کس طرح اس کی مدد کرسکتا ہوں۔
دوسرے دن وہ میرے گھر آیا۔ وہ میرے گھر سے بہت متاثر نظر آرہا تھا۔یہ گھر حاصل کرنے کے لیے میں نے بھاری قرض لے رکھا تھا ۔ ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ رئیل اسٹیٹ کے چھوٹے سے کاروبار سے منسلک ہے۔
میں نے کاروبار کے حوالے سے مزید بات چیت کی، لیکن مجھے محسوس ہوا کہ وہ زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔میں نے اس سے پوچھا کہ میں اس کی مدد کیسے کرسکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اس کا کام ٹھیک چل رہا ہے۔ میں نے اسے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ چاہے تو میں کچھ قرض حاصل کرنے میں اس کی مدد کر سکتا ہوں۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
جاتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ مجھے جلد ہی اپنے گھر پر بلائے گا۔ اس کی وہی پرانی گاڑی اسے لینے آئی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اپنی خوش حال زندگی پر اللہ کا شکر ادا کیا اور سوچا کہ تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
یہ بھی پڑھیں: میں نہ کہتا تھا؟ شیخی خوروں کی نفسیات
دو ہفتے بعد میں اور میری بیوی ایک دور دراز علاقے میں اُس سے ملنے گئے۔ شروع میں میری بیوی جانے سے ہچکچا رہی تھی کیونکہ وہ اس آدمی کی حیثیت سے متاثر نہیں ہوئی تھی ۔تاہم میں نے اسے یہ کہہ کر قائل کر لیا کہ آخر کار ہم کالج میں قریبی دوست رہے تھے۔
ایک جگہ پہنچ کر ہم نے اس کے گھر کا راستہ پوچھا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے بڑے احترام کے ساتھ اس کا نام لیا۔
یہ ایک سادہ لیکن خوبصورت گھر تھا۔ چار بیڈ روم والا بنگلہ۔ میں نے دیکھا کہ گھر کے سامنے چار کاریں کھڑی تھیں۔ ہم اس کے گھر میں داخل ہوئے۔ یہ واقعی ایک خوبصورت گھر تھا۔ اُس نے گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔
لنچ بہت سلیقے سے پیش کیا گیا تھا۔کھانے کے دوران، اس نے میرے مینیجنگ ڈائریکٹر کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ دونوں دوست ہیں۔ میں نے قریب ہی اس کی ایک میز پر اس کمپنی کا تحفہ دیکھا جس میں، میں کام کر رہا تھا۔ اس کمپنی کے پاس تقریباً 38 فی صد شیئرز تھے جہاں میں کام کرتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ کمپنی کا مالک ہے۔
مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ میں نے کب اسے”سر” کہنا شروع کر دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس سے مرعوب ہو رہا تھا۔
دراصل آج میں نے عاجزی کا ایک بہت بڑا سبق سیکھا تھا کہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ محض فریب ہے۔ اس نے میری بے چینی محسوس کر لی تھی۔
گھر واپس آتے ہوئے میں بہت خاموش تھا۔ میری طرح میری بیوی بھی خاموش تھی۔ میں اس کے خیالات کو سمجھ سکتا تھا۔ میں نے اپنے بارے میں سوچا۔ میری زندگی کیا ہے، قرضوں، بلکہ بھاری قرضوں پر زندگی گزارنا اور دکھاوا؟ اس کے مقابلے میں جو مجھے تنخواہ دے رہا ہے وہ کافی متوسط اور سادہ زندگی گزار رہا ہے۔
بے شک گہرے دریا شاہانہ خاموشی کے ساتھ بہتے ہیں!
لوگوں کو ان کی جسمانی شباہت یا تعلیمی سطح کی بنیاد پر نہ تولیں، بلکہ لوگوں کو متاثر کرنے کی بجائے اپنی زندگی کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دیں۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔