Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

افکار ۔۔۔ اوسط درجے کے طالب علم عملی زندگی میں زیادہ کامیاب کیوں ہوتے ہیں؟

اوسط درجے کے طالب علم عملی زندگی میں زیادہ کامیاب کیوں ہوتے ہیں؟

جمیل احمد

انگریزمحقق جان ہالٹی وانگر کا لکھا ہوا ایک متنازعہ مضمون جو ڈیجیٹل میڈیا میں شائع ہوا تھا حال ہی میں وائرل ہوا ہے، جو اس موضوع کے گرد گھومتا ہے کہ اوسط درجے کے طالب علم عملی زندگی میں زیادہ کامیاب کیوں ہوتے ہیں؟

اس مختصرمضمون  میں، ہالٹی وانگر نے ایک نظریہ پیش کیا کہ جو طلبا اعلیٰ گریڈ  حاصل کرتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ سب سے زیادہ ذہین بھی ہوں۔ اس کے علاوہ،اس کے مطابق، “متوسط طلبا” اپنے کام اور ذاتی زندگی کے دوران نمایاں طلباء سے کہیں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیر معمولی بچوں کی پہچان

کیا اوسط درجے کے  طالب علم مستقبل کی بڑی  کمپنیاں تخلیق کرنے کی اہلیت رکھتے  ہیں؟

یقیناً یہ دعویٰ  شدید بحث کا موضوع رہے گا ، شاید اس لیے کہ اس  کی  کوئی سائنسی بنیاد نہیں،  جو اس میں کہی گئی باتوں کی تصدیق کر سکے۔تاہم، یہ آپ کے لیے اس لحاظ سے  دلچسپ ہو سکتا ہے کہ، کم از کم اس کی وجہ سے ہم تعلیم کے کچھ اہم پہلوؤں اور بالخصوص سکولوں کے نظام پر تھوڑی سی بات کر سکتے ہیں۔

اچھے گریڈ  کامیابی  کی ضمانت نہیں ہیں

ہم سب کسی نہ کسی طور محسوس کرتے ہیں  کہ تعلیمی قابلیت ہمیشہ کامیاب کام کی زندگی کی ضمانت  نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ مستقبل میں خوشی حاصل کرنے کا مستند طریقہ ہے ۔ بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ، پڑھائی میں کمزور  لوگوں نے کم تنخواہ والی ملازمتوں پر کام کیا ، یا انہیں بے روزگاروں کے ہجوم  کا حصہ بننا پڑا۔

لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو پڑھائی میں اوسط درجے حاصل کرنے کے باوجود دولت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ۔ بظاہر، ایسا لگتا ہے کہ کامیابی نہ صرف نمایاں طالب علموں کو حاصل ہوتی ہے، بلکہ، متوسط طالب علموں کے پاس بھی ایسی مہارتیں اور قابلیتیں  ہوتی ہیں جوانھیں بہترین  زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں۔

کامیابی حاصل کرنے والے  طلباء کی مثالیں

سٹیو جابز ایک اوسط درجے کے طالب علم کی بہترین مثال تھے ،جنھوں  نے اپنی عملی  زندگی میں شاندار کامیابی حاصل کی، سٹیو جابز، اسمارٹ فون اور ٹیکنالوجی برانڈ منزانہ کے خالق تھے۔ اسی  زمرے کی ایک اور نامور شخصیت  کوئی اور نہیں بلکہ فیس بک کے خالق مارک زکربرگ ہیں، پھر مائیکرو سافٹ  کے خالق  بل گیٹس ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان  میں بڑا نام کمانے والی ان شخصیات میں سے  کوئی بھی ذہین طالب علم نہیں تھا۔اس کے بعد ہم سرجی کولو کی بات کرتے ہیں، جو  سوویت فلکی طبیعیات دان اور انجینئر تھا ۔سپوتنک راکٹ کو خلا میں بھیجنے جیسے کارنامے کے باوجود  وہ کبھی بھی اچھا طالب علم نہیں رہا ۔ ولادیمیر مایاکووسکی کو پڑھنا سیکھنےمیں بڑی مشکل  کا سامنا کرنا پڑا، اور جوزف بروڈسکی بھی ایک نچلے درجے کا  طالب علم سمجھا جاتا تھا۔ان دونوں کو ادب کا نوبل انعام ملا۔

آخر ذہانت کا کامیابی سے کیا تعلق ہے؟

ذہانت، تعلیمی کارکردگی اور پیشہ ورانہ کامیابی کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے؟ ذہانت  تاریخی طور پر نفسیات کے طلباء کے درمیان ایک متنازعہ موضوع  رہا ہے۔ البتہ اتنا کہا جا سکتا  ہے کہ تعلیمی کارکردگی اور ذہانت کے درمیان تعلق کے زیادہ مضبوط شواہد موجود نہیں ہیں۔

دوسری طرف، زندگی میں کامیابی کو بہت سے طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ کامیابی کیا ہے؟ اس بارے میں  ہر شخص کا اپنا نظریہ ہوتا ہے۔چلیں ہم ملازمت یا کام میں کامیابی کی بات کرتے ہیں، کیونکہ اس کا اندازہ لگانا قدرے آسان ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں بھی ماضی میں بہت اچھی کارکردگی دکھانے والے یا بہت ذہین طالب علم اگلی صفوں میں بہت زیادہ دکھائی نہیں دیتے۔

کامیابی کی کنجی ہر ایک کے پاس ہے

مختصراً، کامیاب ہونا ہمارے  تعلیمی ماڈل کی مسلط کردہ اسکیموں سے کہیں  آگے کی بات ہے۔ دراصل ہم تعلیمی کارکردگی  کو حد سے زیادہ کامیابی کی وجہ سمجھتے ہیں، جب کہ کامیابی کے لیےاس کے علاوہ  ہمت، استقامت اور تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔دوسری طرف ، اپنی زندگی میں اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمیں کبھی کبھی ناکامی کا سامنا کرنا  پڑتا ہے،لیکن اس سے  ہم جو کچھ سیکھتے ہیں، وہ ہمیں  اپنے مقاصد کی طرف بڑھنے میں مدد دیتا  ہے۔گویا بظاہر ناکام ہونا کامیابی کی طرف بڑھنے کی علامت ہے۔

ناکامی کی قدرو قیمت

ناکامی دراصل  مستقبل میں کامیابی حاصل  کرنے میں اہم کردار ادا کر  سکتی ہے۔ اور بلاشبہ، اس کی قدر و قیمت وہ لوگ سمجھتے  ہیں جنہوں نے اسکول کے امتحانات پاس کرنے میں بار بار مشکلات کا سامنا کیا۔ ایسے لوگوں کی  کبھی تعریف نہیں کی گئی یا انھیں انعامات نہیں ملے، اس لیے وہ کوشش کی قدرو قیمت، مسلسل  جدوجہد اور مشکلات  پر قابو پانے کی صلاحیت سے  پہلے ہی واقف ہوتے  ہیں۔یوں سمجھ لیجیے کہ اوسط درجے کے  طلباء نے اعلیٰ درجے کے طالب علموں کے مقابلے میں اپنی ناکامیوں سے سنبھلنا  زیادہ سیکھ لیا ہوتا ہے ۔

تخلیقی صلاحیت، ایک اور مہارت جس پر سکول میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اوسط درجے کے طالب علموں کا  اپنے حلقوں میں فطری لیڈر  بننے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ وہ ضابطوں  اور تعلیمی سیاق و سباق سے ہٹ کر دوسرے شاگردوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ایسے افراد  زیادہ تخلیقی سوچ کے مالک ہوتے  ہیں، اور اکثر لگی بندھی اور روکھی پھیکی  کلاسوں میں کم ہی دلچسپی لیتے  ہیں۔ یہ لوگ ہماری سوچ  سے زیادہ تخلیقی ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ سکول کے ضابطوں کے مطابق  نہیں بلکہ اپنے تجربات کی بنیاد پر سوچتے ہیں۔

اس موضوع پر بہت سے دوسرے نکات کے علاوہ اس نکتے پر کافی بحث ہوئی  ہے کہ سکول میں رسمی تعلیم کے کچھ طریقے طلباء کی تنقیدی سوچ ، ان کی تخلیقی صلاحیتوں یا بعض تجربات کو پروان چڑھانے سے روک سکتے ہیں۔ سکول میں، ہمیں عام طور پر سکھایا جاتا ہے کہ چیزیں کیسی ہیں، لیکن ہمیں ان پر سوال کرنے کے زیادہ مواقع نہیں ملتے۔ نہ تو بامعنی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، اور نہ ہی طلباء کو متبادل طریقوں سے مسائل حل کرنے کے طریقے سکھائے  جاتے ہیں۔

دوسری طرف ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیاب کمپنیاں چلانے والے لوگ مختلف سوچ کے ساتھ کام کرتے رہے ۔ انہوں نے عام طور طریقوں  سے ہٹ کر ذرا آگے سوچا۔ انہوں نے ایسے منصوبے شروع کیے جو روایتی سوچ کے حامل نہیں تھے۔ ایسے افراد تیزی سے سیکھتے ہیں، متحرک ہوتے ہیں اور اپنے طریقے سے کام کرتے ہیں۔

خبردار: ناکام  طالب علم ہونا آپ کے مستقبل کے لیے اچھی بات  نہیں ہے

اگرچہ ہالٹی وانگر نے اپنا مفروضہ اسٹیو جابز، مارک زکربرگ اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی بنیاد پر پیش کیا ہے، لیکن حقیقت  یہ ہے کہ خراب  گریڈ (یا معمولی درجے) حاصل کرنا اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی میں ہمیشہ کامیاب ہوں گے،  نہ ہی بات اس کے برعکس ہے۔

خلاصہ یہ کہ، کامیابی بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی  ہے، جن میں کردار، استقامت، تجربہ اور رابطے نمایاں ہیں۔ تعلیمی کارکردگی ، ایک خاص معنی  میں، ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ البتہ ہالٹی وانگر کا مضمون ان لوگوں کے لیے ایک محرک ہو سکتا ہے جو اپنے اسکول یا یونیورسٹی میں اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ زندگی میں ہمیشہ ہمیں آگے بڑھنے کے نئے طریقے، مواقع اور لمحات ملتے رہیں گے، جن سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ تعلیمی کارکردگی کا  کامیابی یا ناکامی سے تعلق بہت سی دوسری چیزوں پر منحصر ہے۔ اصل تجربہ اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب ہم کلاس روم سے نکل کر عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email