تبصرہ: جمیل احمد
“انجانی راہوں کا مسافر پڑھتے ہوئے ایک سبق سیکھا کہ اگر نظر کا زاویہ بدلا جائے تو معنی، مطلب، شان و شوکت سب کچھ بدل جاتا ہے۔ یہ فلک بوس پلازے صرف زمین سے اونچے ہیں، باقی ان میں کچھ نہیں۔ میرے نزدیک سفر ہو یا زندگی سب کا یہی حاصل ہے۔”
ابھی ابھی امانت علی کا سفر نامہ “انجانی راہوں کا مسافر” پڑھ کر مکمل کیا۔ امانت علی انگریزی کے استاد، کالم نگار، سوشل ورکر اور ٹرینر ہیں۔ مجمعہ یونیورسٹی ریاض سعودی عرب میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ سفر نامہ امانت علی کے ترکیہ اور کینیا کے سفر کی روداد ہے، جس میں انھوں نے دلچسپ پیرائے میں سفر کی روداد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے سماجی حالات اور تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مجموعی طور پر ان کا انداز بیاں سلیس اور عام فہم ہے۔ خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان لکھاریوں میں سفر نامے لکھنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے منتظمین، بالخصوص پروفیسر ظفر اقبال مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ یکے بعد دیگرے نوجوان قلم کاروں کو منظر عام پر لانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کتاب کی پرنٹنگ اور تزئین اعلیٰ معیار کی ہے۔ خوب سے خوب تر کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے، تاہم “انجانی راہوں کا مسافر” ہماری لائبریری میں اچھا اضافہ ہے۔
مصنف کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ، جمیل احمد
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔