Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

اشکوں کے دیے

اشکوں کے دیے

تبصرہ: جمیل احمد

پروفیسر نسیم سلیمان صاحبہ کی کتاب “اشکوں کے دیے” میرے ہاتھ میں ہے۔یہ ان کی یادوں کے تسلسل کی تیسری کڑی ہے۔اس سے قبل ان کی دو کتابیں “یادوں کی الماری” اور “دیپ بکھری یادوں کے” قارئین میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ہو سکتا ہے یہ محض حُسنِ اتفاق ہو، کہ تینوں کتابوں کے سرورق  ایک جیسی قلبی واردات کی عکاسی کرتے ہیں۔موضوعات بھی وہ جو مصنفہ کے حساس دل کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ حساس دل ماضی کو یاد کرتا ہے ،کیونکہ ماضی میں اس کے مسرت بھرے لمحات، قہقہے، آنسو  اور رنج و الم کی گھڑیاں، سب ہی کچھ محفوظ ہوتا ہے۔ پھر  یادیں انسان کو اپنے ماضی اور اپنی اصل  کے ساتھ جوڑتی ہیں اور اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی ماضی کی یادیں انسان کو تسلی  دیتی ہیں اور کبھی کبھی عذاب بھی۔گویا  ماضی کا اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شایداسی لیے وہ  اختر انصاری ، جنھوں نے “یادِ ماضی عذاب ہے یا رب” جیسا  زبان زدِ عام شعر تخلیق کیاتھا، انھیں یہ بھی کہنا پڑا کہ:

وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا

نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے

تو قاری مصنفہ کی یادوں کے ساتھ ساتھ اسی طرح کے ملے جلے  احساسات  لیے  چلتا ہے۔پروفیسر نسیم سلیمان کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مشاہدات کو ایک رُخ دیا، اور بیشتر  مشاہدات کو کسی نہ کسی  نتیجے کے ساتھ جوڑا۔جیسا کہ ضروری نہیں  ہر مشاہدے کا انجام طربیہ ہو،  “اشکوں کے دیے” کی بیشتر کہانیاں بھی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی سبق چھوڑ جاتی ہیں۔

“اُجڑی ہوئی لاوارث بس” ہی کو لے لیجیے۔تباہ حال بس کی تاریخ پر غور کرنے کی کون زحمت کرے۔نسیم سلیمان کے مضطرب دل نے اس پرانی بس سے بھی ایک سبق ڈھونڈ نکالا۔پھر “وہ اُجڑی ہوئی لاوارث بس چل بسی” میں اس کا انجام بھی دکھا دیا۔

“وہ دُور دیس کا بسی تھا” ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کرتی ہوئی انتہا پسندی کا نوحہ ہے۔”مائیں کیوں مر جاتی ہیں” وہی قلم لکھ سکتا ہے، جو ممتا کی محبت اور اس کی جدائی کے کرب سے آشنا ہو۔”جلسے اور جلوس” ایک معاشرتی سبق لیے ہوئے ہے۔”پیر شعلہ شہید” بچپن کی معصوم سی یادوں کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔”بیٹی” اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرنے کا پیغام ہے۔”راولاکوٹ سٹیزن فورم” ایک ہمت افزاء تحریر ہے۔”لاڈلا” تلخ احساسات کی ترجمانی ہے۔”اخروٹ کے درخت” ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت کی یاد دلاتے ہیں۔”آئزل سلیمان” ممتا کے خوب صورت احساسات کی  عکاس ہے۔اسی طرح “چرخہ” اور جماڑو” بھی یادوں کے گہرے نقوش  کا اظہار ہیں۔”پہالے” میں بتایا کہ ان لوگوں کا رہن سہن کیسا ہے۔”شاردہ یونیورسٹی”میں ہزاروں سال پہلے قائم کی گئی درس گاہ کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے۔”کھڑک میرا گاؤں” اور “اپنا راولاکوٹ” اپنی دھرتی کے پیار میں ڈوبی ہوئی تحریریں ہیں۔اور “آؤ اب لوٹ چلیں” دو مخلص دوستوں کے سچے اور شفاف جذبوں  کا حسین اعتراف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یادوں کی الماری

کتاب پڑھتے ہوئے قاری کو کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ مصنفہ نے لفّاظی، تصنّع یا بناوٹ سے کام لیا ہے۔خلوص ہو، معصوم رشتےیا  سچے جذبے ہوں، دردِ دل ہو یا  معاشرتی المیے اور ان کے بارے میں تجاویز، ہر بات مصنفہ سیدھے سادے  اور دل کو لگنے والے الفاظ میں کہہ جاتی ہیں۔غرض پروفیسر نسیم سلیمان نے “اشکوں کے دیے” کی شکل میں قاری کو اپنا خوب صورت ماضی یاد دلایا  ہے، بلکہ اس کی قدر و قیمت کا احساس بھی دلایا ہے۔یقیناً یہ کتاب قارئین کو ایک خوب صورت دور کی یاد دلائے گی۔

یہ کتاب ممتاز پبلی کیشنز نے شائع کی ہے، جس پر مہوش ممتاز  نے نظر ثانی کی ہے۔سرورق دلکش، طباعت دیدہ زیب، صفحات 156 اور قیمت چھ سو روپے ہے۔ناشران سے ای میل کے ذریعے mumtazpublications313@gmail.com اور واٹس ایپ کے ذریعے   03060718996  پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email