جمیل احمد
تاریخ عالم میں اگر کوئی ایسی ہستی تلاش کی جائے جس کی پوری زندگی پورے اعتماد کے ساتھ محفوظ ہو، جس کی سیرت انسانی سماج کے ہر فرد کے لیے رہنمائی رکھتی ہو، جس کی حیات طیبہ کو ہر شعبہٴ زندگی کے لیے ایک بہترین آئیڈیل کے طور پر پیش کیاجاسکے ، تو ہزارہا برس کی طویل انسانی تاریخ میں صرف ایک ہستی ایسی ملے گی اور وہ ہوگی سید الانبیاء،خاتم النبیّن محمد عربی ﷺ کی، جس کی مثال نہ تو اس سے پہلے وجود میں آئی اور نہ آئندہ ایسی جامع اوصاف کی مالک شخصیت دنیا کو نصیب ہوسکے گی۔
نبی کریم ﷺ کی بعثت ِ مبارکہ کے بعد چند ہی سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل گیا۔ تاریخ آج بھی ورطۂ حیرت میں ہے کہ اتنا بڑا معاشرتی انقلاب چند سالوں میں کیسے ممکن ہوا؟ وہ انقلاب اتنا جامع و مکمل تھا، اتنا کامل و اکمل تھا، اتنا بہترین اور لازوال تھا کہ پندرہ سو سال بعد بھی اگر کائناتِ انسانی میں کسی آئیڈیل معاشرے کی مثال دی جاتی ہے تو کیا اپنے، کیا پرائے، سب کے سب نبوی معاشرے کی مثال دیتے ہیں۔
اسوۂ حسنہ کا مفہوم
اسوۂ حسنہ، یعنی نبی کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیمات، ہمارے لیے ایک کامل نمونہ ہیں۔ آپؐ کی زندگی میں ہمیں ہر وہ صفت مل جاتی ہے جو ایک مومن کو کامل بناتی ہے۔ اسوہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے نبی کریم ﷺ کی زندگی اور کردار آئیڈیل ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: “بیشک تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے۔” (سورہ الاحزاب آیت 21)۔ اس آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور کردار ہمارے لیے سب سے بہترین نمونہ ہے۔لہٰذا آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو، آپؐ کے اخلاق، آپؐ کے اعمال، آپؐ کے فیصلے، آپؐ کی باتیں، سب کچھ ہمارے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ اس مضمون میں ہم اس بات پر بات کریں گے کہ ہم کس طرح اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی میں اپنا سکتے ہیں۔
اسوہ حسنہ کے چند پہلو
سچی بات تو یہ ہے کہ اُسوہ حسنہ کے بیان کا قلم احاطہ نہیں کر سکتا۔تاہم یہاں ہم آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے چند پہلو ؤں کا ذکر کرکے اپنے قلب و روح کے لیے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے:
اخلاقی کمال:
نبی کریم ﷺ کا اخلاق آپؐ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ آپؐ صبر، بردباری، شفقت، رحم دلی، امانتداری، صداقت ، غرض جامع اخلاقی صفات کا پیکر تھے۔
طبرانی ،حاکمؒ ، ابن حبانؒ ، بیہقی اور دوسرے قابل اعتبار محدثین نے ایک یہود کے عالم کی زبانی روایت کی ہے جس کا نام زیدبن سعنہ تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ میں نے اگلی کتابوں میں رسول آخر الزماں ﷺ کی تعریف دیکھی تھی اور وہ سب اوصاف آنحضرت ﷺ میں پائے جاتے تھے، مگر دو وصفوں کا حال مجھے معلوم نہ تھا؛ایک یہ کہ غُصے پر حِلم غالب ہو اور دوسرا یہ کہ سخت بات سننے سے غصہ نہ آئے، بلکہ نرمی اور زیادہ ہو؛ سو میں چاہتا تھا کہ ان دونوں باتوں کو کسی طرح سے آزماؤں۔ مدّت تک اس کی انتظار میں رہا۔اتفاق سے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے کھجوریں بطورقرض خریدیں اور اس کے ادا کرنے کی ایک مدت مقرر کی۔ میں اس مدت سے دو تین دن پہلے آپؐ کے پاس گیا اور اپنی رقم کا تقاضا شروع کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ آپؐ سن کر چپ ہو رہے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ ابھی تمہارا وعدہ نہیں ہوا، تم تقاضا کیوں کرتے ہو؟ میں نے پھر سخت تقاضا کیا اور میں نے دیکھا کہ آپؐ کے اصحابؓ بہت غصہ میں آئے اور مجھ سے سخت باتیں کہیں، لیکن آپؐ کو ہر گز غصہ نہ آیا، یہاں تک کہ میں نے یہ بھی کہا کہ تمہارے خاندان میں اسی طرح قرض ادا کرتے ہیں؟ حیلہ حوالہ کیا کرتے ہیں؟ کسی قرض خواہ نے تم سے اپنا قرض آسانی سے نہیں وصول کیا ہوگا۔ اس بات کے سننے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور میں اُٹھ کے آپ ﷺ کا کرتہ شریف اور چادر مبارک ہاتھ سے پکڑ کے اپنی طرف کھینچنے لگا اور غصے کی آنکھوں سے میں نے آپؐ کی طرف دیکھا اور کہا کہ ابھی اٹھو اور میرا قرض ادا کرو۔ آنحضرت ﷺ اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے قرار ہو کے تلوار لے کر میرے سر پر آپہنچے اور کہنے لگے کہ اے دشمن ِخدا ! تو باز نہیں آتا ہے، ابھی تیرا سر اڑا دیتا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ نے مسکراکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ مجھ کو تم سے یہ توقع نہ تھی، تم کو چاہیے تھا کہ مجھ کو سمجھاتے کہ اس کا قرض اچھی طرح آسانی سے ادا کیجئے اور اس کو سمجھاتے کہ نرمی سے تقاضا کرو۔سو اس کے خلاف یہ کیا بات ہے جو تم کہتے ہو ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت شرمندہ ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس سے زیادہ مجھ میں صبر نہیں ہے، اگر آپ فرمائیں تو میں اس کا قرض ادا کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤاس کا جتنا قرض ہے وہ دو اور بیس صاع اس سے اور زیادہ اس کو دو، تاکہ تمہاری اس بدسلوکی اور سخت گوئی کا عوض ہو جائے ۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میں اس بات کے سنتے ہی ایمان لایا اور آپ ﷺ کی پیغمبری کا قائل ہوگیا ۔
عبادت:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺاتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ تو آپؐ سے عرض کیا گیا کہ آپؐ(اتنی مشقت کے ساتھ)ایسا کرتے ہیں جب کہ آپؐ کو تو یہ نوید مل چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لیے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: ”تو کیا میں(اللہ تعالیٰ کا)شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“
سماج اور معاشرت:
نبی کریم ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بہترین معاشرتی تعلقات قائم رکھے۔
مظلوموں کی مدد اور محتاجوں کی اعانت آپ ﷺ کا شیوہ رہا ہے، مکہ مکرمہ میں جب ایک مظلوم نے مدد کے لیے خانہٴ کعبہ کے پاس فریاد کی تواس کی مدد کے لیے چند دیگر افراد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ بھی کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں انھوں نے باہم مشورہ کرکے ایک جماعت بنائی اور یہ عہد کیا کہ مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم کیا جائے گا ہم سب اس مظلوم کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ تاریخ میں ”حلفُ الْفُضُول“ کے نام سے سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے۔ ظلم کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرنا اورمظلوم کو اس کاحق دلانا رسول اللہ ﷺ کو اس قدر محبوب تھا کہ مدنی زندگی میں بھی ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے آج بھی حلف الفضول میں بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔
سماج کے کمزور افراد کی خبرگیری اور مدد آپ ﷺ کی حیات طیبہ کی روشن مثالیں ہیں۔ ایک صحابی حضرت خباب رضی اللہ عنہ کسی لشکر میں گئے ہوئے تھے، ان کے گھر میں کوئی دوسرا مرد نہ تھا، اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا۔آپ ﷺ روزانہ ان کے گھر جاکر دودھ دوہ آتے تھے۔ دوسروں کے کام کردینا آپ ﷺ کو اس قدر محبوب تھا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوچکی تھی، اسی دوران ایک بدو نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر کہا، میرا تھوڑا ساکام رہ گیا ہے، آپؐ پہلے اسے کردیجئے۔ آپ ﷺ چپ چاپ اس کے ساتھ ہولیے، اوراس کا کام پورا کرنے کے بعد نماز کے لیے تشریف لائے۔
مکہ میں ایک بار قحط پڑگیا۔ اہل مکہ جو مسلمانان مدینہ کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے، رسول کریم ﷺ نے ان کے ساتھ انسانی حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت وتنگدستی کے عالم میں بھی پانچ سو دینار جمع کرکے سرداران مکہ کو بھیجے کہ وہ قحط کے شکار لوگوں کی مدد کرسکیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذاتی اور گھریلو زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اورہر دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے“
سرکار دوعالم ﷺ کا فرمان ہے کہ خیرخواہی کرو، اور دین خیرخواہی کا نام ہے۔انسانوں کو نفع پہنچانے کے لئے طریقے ہوسکتے ہیں، نفع اور خیروبھلائی کے ہر طریقے کو سراہا گیا ہے۔کسی سے دو میٹھے بول کہہ دینا بھی صدقہ ہے، جس انسان کی زندگی ہمدردی سے محروم ہوچکی ہو اس کے لیے ہمدردی کے چند جملے کتنی قیمت رکھتے ہیں، کسی سے خوش دلی اور بشاشت کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے، راستہ میں کسی تکلیف دہ چیز کو دیکھ کر اسے راستہ سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، بندوں پر رحم کرو،جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحمت عالمﷺ کی یہ شان رحمت صرف انسان تک محدود نہیں تھی، بلکہ انسانی سماج میں انسانوں کے ساتھ رہنے والے ہر جاندار کے لیے عام تھی۔ چنانچہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی۔
انسانی سماج کا ایک اہم حساس اور تشویشناک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے اور اس کی تباہ کاریوں سے انسانی معاشرہ لرز رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اس سے متعلق کیسی روشن ہدایات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے گا اس سے جوانسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا تو اس کا ثواب درخت لگانے والے کو ملے گا۔ ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے رسول اللہ ﷺ نے دوران جنگ بھی منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے۔پانی کے بے جا خرچ کو روکنے کی اہمیت رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اتنی تھی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص ندی کے کنارے بیٹھ کر پانی کا استعمال کرے تو بھی وہاں ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔ عام راستوں اورگزرگاہوں پر کوئی گندی چیز پھینکنے، یا غلاظت کرنے کو آپ ﷺ نے منع فرمایا، بلکہ راستوں سے کسی بھی نقصا ن دہ چیز کو ہٹانے کی تعلیم فرمائی۔
بازار کی اشیاء خوردنی میں ملاوٹ اور نفع خوری کے لیے دھوکا دہی آج عام شیوہ ہوتا جارہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،جو دھوکا دہی سے کام لے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ایک بار آپ ﷺ نے بازار میں ایک سامان کے اندر ہاتھ ڈالا تو اوپر سے خشک سامان اور اندر سے تر نکلا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دھوکا ہے، تر حصہ کو اوپر کرو۔
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی کمزوریوں سے چشم پوشی، ان کے حقوق کی ادائیگی ، ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تفصیلی ہدایات رسول اللہ ﷺ کی سیرت و حیات میں موجود ہیں۔
معاشرے میں باہمی اعتماد، تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتاہے۔ ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہﷺنے بڑے اہتمام کے ساتھ ہدایت دی ہے کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں او ر سلام کو رواج دیا جائے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ باہمی مدد اور تعاون کا اس قدر احساس دلایا گیا کہ فرمایا، جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے۔
قائد کی حیثیت:
نبی کریم ﷺ ایک بہترین قائد تھے۔ آپؐ نے ایک کمزور قوم کو دنیا کی سب سے طاقتور قوم بنا دیا۔ نبی آخرالزماں ﷺ نے اپنے رفقاء کو ایمان کی دولت عطا کرنے کے ساتھ، بہترین تنظیم میں پرویا۔ ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور اداراتی (Institutional)سطح پر انھیں اس شان سے ذمہ داریاں سونپیں کہ اشاعت ِ اسلام اور اقامت ِ دین کا یہ کام ایک ہمہ گیر سسٹم کی شکل میں قائم ہوا، اور پھلا پھولا۔
ہجرت مدینہ کا واقعہ ہو یا ہجرت حبشہ کے موقع پر حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو مہاجرین کا امیر منتخب فرمانا، میثاقِ مدینہ ہو یا اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے مطابق کام لینا، تعمیر شخصیت کی بات ہو یا معلمین اور مبلغین کی تیاری، معاملات حکومت ہوں یا ایک فلاحی معاشرے کا قیام، غرض آپ ﷺ نے قائدانہ اوصاف اور حکمت و بصیرت کا وہ نمونہ پیش کیا جس کی مثال رہتی دنیا تک سب کے لیے مشعل راہ رہے گی۔
انصاف پسندی:
نبی کریم ﷺ سراپا رحمت اور عدل و انصاف کا پیکر تھے۔ ہمیشہ انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ آپؐ کسی کے ساتھ امتیاز روا نہیں رکھتے تھے۔
ایک مرتبہ قریش اور عرب کے سرداروں نے حضور ﷺ سے کہا: ہم تمہارے پاس کیسے آ کر بیٹھیں، تمہاری مجلس میں ہر وقت غریب، مفلس اور نچلے طبقے کے لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹاؤ تو ہم آ کر بیٹھیں گے۔ مگر وہ نبی جو رنگ و نسل، خاک و خون کے بتوں کو توڑنے کے لئے آیا تھا، اُس نے ان سرداروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا۔
ایک دفعہ حضور ﷺ نے عثمان بن طلحہ سے کہا کہ بیت الله کھول دو لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اے عثمان!دیکھنا ایک دن یہ چابی میرے پاس ہو گی۔ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے عثمان بن طلحہ سے وہی چابی لی اور بیت الله کا دروازہ کھول کر خانہٴ خدا کو بتوں سے پاک کیا۔ حضرت عباس نے حضورِ اکرم ﷺسے کہا کہ یہ چابی بنو ہاشم کو دے رضی اللہ عنہ دی جائے، لیکن حضور ﷺ نے چابی پھر عثمان بن طلحہ کو لوٹا دی جو مدت سے بیت الله کے کلید بردار چلے آ رہے تھے۔اگر آپ چاہتے تو یہ چابی اپنے خاندان والوں کو بھی عطا کر سکتے تھے لیکن آپ نے چابی اصل حقدار کو لوٹا دی۔
یہ بھی پڑھیں: سکول اور کردار سازی
اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی میں کیسے اپنائیں؟
جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے تو ہم اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی میں کیسے اپنائیں۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن پاک کا مطالعہ کرنا چاہیے۔قرآن اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور اسوۂ حسنہ اس کی عملی تفسیر ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کا مقصد کیا تھا، اور آپؐ نے اس مقصد کی خاطر وحی الٰہی کی روشنی میں اپنی زندگی کیسے گزاری۔
دوسری بات ہے سنتِ رسول ﷺ۔سنت نبی کریم ﷺ کی وہ باتیں ہیں جنہیں آپ ﷺ نے فرمایا یا کیا۔سنت کا لغوی معنی خاص طریقہ، ضابطہ، طرز، وغیرہ ہے۔ جب کہ سنت کا اصطلاحی معنی محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ سنت ہر وہ قول، فعل، تقریر اور صفت ہے جس کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کی جائے۔ سنت کا احترام کرنا اور سنتوں کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی ایک اہم شرط ہے۔تو ہمیں اپنی زندگی میں سنت کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور سنت کے خلاف کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، پس جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے،(یعنی) اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ “ (مشکوٰۃ المصابیح)
حاصلِ کلام:
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی میں اپنا کر ہی ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی زندگی میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی اور مسلسل علم کی جستجو میں رہنا ہوگا۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses
جزاک اللہ خیرا و تبارک اللہ. .
سلامت رھیے، محترم جمیل احمد صاحب!
آمین۔ بہت شکریہ اور آپ کے لیے بھی بہت سی دعائیں!