جمیل احمد
ہائی سپیڈ ٹرین 250 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ رہی تھی۔ ہم نے کھڑکی کے پردے اوپر کی طرف سرکا دیے اور باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگے۔ دائیں بائیں کی چیزیں اتنی تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑ رہی تھیں کہ انہیں کیمرے کی گرفت میں لانا خاصا مشکل تھا۔ تا حد نگاہ پھیلے ہوئے میدان، کہیں کہیں چٹیل پہاڑ، ان مناظر کے بیچ میں وسیع کھیت، پھلوں کے باغ، سبزہ زار اور ان میں چرتے ہوئے جانور بھی دکھائی دیتے۔ بدلتے ہوئے مناظر سفر کا مزہ دوبالا کر رہے تھے۔ ساتھیوں کی خوش گپیاں بھی جاری تھیں۔ ٹریک میں کہیں خم آ جاتا یا آبادی سے گزر ہوتا تو ٹرین کی رفتار کم ہو جاتی۔ روانگی سے کچھ دیر بعد چائے، کافی اور سنیکس سے مسافروں کی تواضع کی گئی۔ اس پر آسائش ٹرین کا نام “افراسیاب” رکھا گیا ہے۔
افراسیاب دراصل سمرقند کا پرانا نام ہے۔ تاشقند سے سمرقند تک 344 کلومیٹر طویل جدید ٹریک کی تکمیل 2015 میں ہوئی جبکہ سمرقند سے بخارا تک 256 کلومیٹر طویل ٹریک کی توسیع کا کام 2016 میں مکمل ہو گیا۔ ہم تاشقند سے روانہ ہوئے تھے اور ہماری منزل بخارا تھی۔ تقریباً 600 کلومیٹر کا سفر تین گھنٹے پچاس منٹ میں طے ہو گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہم نے تین مرتبہ افراسیاب سے سفر کیا، ہر بار ٹرین ٹھیک وقت پر پہنچی اور روانہ ہوئی۔ یہ ازبکستان ریلوے کے حسن انتظام کا واضح ثبوت ہے۔
بخارا ایک افسانوی شہر ہے۔ ڈھائی ہزار سال پرانے اس شہر میں قدم قدم پر علماء، اساتذہ، بزرگوں، بادشاہوں، جنگوں اور فاتحین کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ دنیا کی تاریخ بخارا کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ بخارا ازبکستان کا چھٹا بڑا شہر اور صوبہ بخارا کا صدر مقام ہے۔ اس کی آبادی پونے تین لاکھ ہے۔ یہ شہر ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔ بخارا کا قدیم مرکز یعنی اولڈ بخارا یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ 850 عیسوی میں بخارا دولت سامانیہ کا دارالحکومت بنا۔ 1220 عیسوی میں یہ شہر چنگیز خان کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنا۔ یہاں 158 فٹ بلند عالی شان کلیان مینار ہے۔ اس مینار سے اذان دی جاتی تھی اور بادشاہ کے فرمان پڑھ کر سنائے جاتے تھے۔ اسے موت کا مینار بھی کہا جاتا تھا کہ بیسویں صدی سے کچھ پہلے تک مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے اس مینار سے گرا دیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں چنگیز خان بخارا کو تباہ و برباد اور آبادی کو قتل کرتے ہوئے جب کلیان مینار پر پہنچا تو اس کا شکوہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا۔ وہ اس مینار کے جاہ و جلال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنے جنگجووں کو کلیان مینار کو چھوڑ دینے کا حکم دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔
1865 عیسوی میں سلطنت روس کے ہاتھوں شکست کے بعد بخارا اور سمرقند سمیت بہت سے علاقے روس کے قبضے میں چلے گئے۔ 1917 کے انقلاب روس کے بعد 1920 عیسوی میں مقامی امیر محمد عالم خان کے خلاف بغاوت ہوئی اور اسی سال اشتراکیوں نے بخارا پر قبضہ کر لیا، جو 1991 میں ازبکستان کی آزادی تک برقرار رہا۔ ہم نے بخارا کا عظیم الشان ارک قلعہ بھی دیکھا جہاں سے محمد عالم خان نے آخری لڑائی لڑی۔ یہ قلعہ پانچویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا، جو تقریباً اسی کنال کے رقبے پر محیط ہے۔ قلعے کی دیواریں 52 سے 66 فٹ تک اونچی ہیں۔ شام ہو چکی تھی. قلعے کی چھت سے ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ ماضی کی داستان کے پس منظر میں ایک عجیب کیفیت طاری کر رہا تھا۔
قلعے کے عین سامنے سڑک کے پار بولو حوض مسجد ہے، جو 1712 عیسوی میں تعمیر ہوئی۔ اسے چالیس ستونوں والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے عین سامنے ایک حوض ہے۔ مسجد کے برآمدے میں بیس ستون نصب ہیں۔دور سے دیکھنے پر ان ستونوں کا عکس پانی میں نظر آتا تو چالیس ستون دکھائی دیتے۔ اس طرح اس کا نام چالیس ستونوں والی مسجد پڑ گیا۔ بخارا ایک مردم خیز شہر تھا۔ امام بخاری اسی شہر میں پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ ہم گزشتہ کالم میں کر چکے ہیں۔ ہم نے امام بخاری کی جائے پیدائش دیکھی۔ سلسلہ نقشبندیہ کے بانی بہاء الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ بھی بخارا کی سرزمین کا درخشندہ ستارہ ہیں۔ آپ 1317 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام محمد بہاء الدین اویس البخاری تھا۔ آپ کو شاہ نقشبند کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت سے پہلے ہی وہاں سے گزرتے ہوئے ایک بزرگ شیخ محمد بابا السماسی نے فرمایا تھا کہ مجھے یہاں سے ایک مرد خدا کی خوشبو آتی ہے۔ ابتدائی طور پر آپ نے بابا السماسی کی صحبت اختیار کی جو اس وقت وسطی ایشیا کے بڑے محدث مانے جاتے تھے۔ بابا السماسی کی وفات کے بعد آپ نے شیخ امیر کلال کی صحبت اختیار کی اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔
بہاء الدین نقشبند فرماتے ہیں کہ انہوں نے بے خودی کے عالم میں اپنے روحانی مربی عبد الخالق غجدوانی کو دیکھا تو انہوں نے تین نصیحتیں کیں۔ پہلی یہ کہ استقامت سے شریعت کی راہ پر چلنا، کبھی اس سے قدم باہر نہ نکالنا۔ دوسری عزیمت اور سنت پر عمل کرنا اور تیسری یہ کہ بدعت سے دور رہنا۔ بہاءالدین نقشبند کا قول مشہور ہے کہ “دل با یار، دست با کار” یعنی دل اللّہ کی یاد میں مصروف رہے اور ہاتھ اپنے کام میں۔ آپ کے مزار پر پہنچے تو دل عقیدت سے لبریز تھا۔ وقفے وقفے سے کوئی خوش الحان قاری سحر انگیز آواز میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور سننے والے اس کی تاثیر میں ڈوب جاتے۔ اس کے بعد دعا کی جاتی۔ یوں یہ سلسلہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔
دنیائے اسلام کے عظیم مفکر اور فلسفی بو علی سینا بھی بخارا کے رہنے والے تھے۔ آپ 980 عیسوی میں فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں افشنہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں ان کے والدین بخارا منتقل ہو گئے تھے۔ بخارا کے سلطان نوح بن منصور ایک بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ کسی حکیم کی دوائی کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ بو علی سینا اس وقت اٹھارہ سال کے تھے۔ انہوں نے سلطان نوح بن منصور کا علاج کیا جس سے وہ صحتیاب ہو گئے۔ سلطان نے خوش ہو کر انہیں اپنی لائبریری سے استفادہ کرنے کی اجازت دے دی۔ بو علی سینا کا حافظہ بہت تیز تھا۔ انہوں نے لائبریری چھان ماری اور بہت سی معلومات اکٹھی کر لیں۔ انہیں بجا طور پر جدید میڈیکل سائنس کا بانی کہا جاتا ہے۔ بو علی سینا نے تحصیل علم کے شوق میں خوارزم، جرجان، رے، ہمدان اور اصفہان کا سفر کیا۔ ان کا انتقال ہمدان میں ہوا۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ساڑھے چار سو کتابیں لکھیں، جن میں سے 250 ہی دستیاب ہیں۔ بعض محققین کے خیال میں انہوں نے ننانوے کتابیں تصنیف کیں۔ فلسفہ اور طب کے علاوہ ابن سینا نے فلکیات، کیمیاء، جغرافیہ، ارضیات، منطق، ریاضی، طبیعیات اور شاعری میں بھی قابل قدر کام کیا۔ ان کی کتاب “طبی قوانین” کے بہت سے ابواب 1650 تک مغرب کی یونیورسٹیوں میں معیاری کتب کے طور پر پڑھائے جاتے رہے۔ یہ کتاب 1973 میں نیویارک میں دوباہ شائع کی گئی۔
ازبکستان کے چھے روزہ دورے میں تاشقند ہو، بخارا کا تاریخی ورثہ ہو، سمرقند میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت قسام ابن عباس کی قبر کے احاطے میں تعمیر شدہ شاہ زندہ کمپلیکس ہو یا حضرت دانیال علیہ السلام کی 18 میٹر لمبی قبر، ہر قدم پر ہمارے لیے حیرت کے باب کھلتے چلے گئے۔ ہم اپنے آپ کو کسی طلسماتی داستان کا کردار تصور کرنے لگے تھے۔ غرض اس دورے نے صدیوں پر محیط اپنی وراثت، ثقافت اور تاریخ سے ہمارا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ دیا۔ ہم وہاں سے لوٹ آئے تھے، لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ “ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔”
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response