Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ازبکستان کا سفر ۔۔۔ بخارا کا آفتاب

ازبکستان کا سفر 2: بخارا کا آفتاب

جمیل احمد

ٹورسٹ ہمہ تن گوش تھے۔ تاریخ کے ادھ کھلے دریچے سے بخارا کا بارہ سو سال پرانا منظر دکھائی دینے لگا۔ چشم تصور نے دیکھا کہ سولہ سال کا یتیم نوجوان اپنی والدہ محترمہ اور بھائی کے ساتھ حج کے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ علم کی پیاس اس قدر تھی کہ والدہ کی اجازت سے حج کے بعد مکہ مکرمہ ہی میں قیام کا ارادہ کر لیا۔ شاید بخارا کا آفتاب بننا اسی کے نصیب میں لکھا تھا۔

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بہت بڑے اساتذہ کی صحبت اختیار کی۔ حدیث رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے دل میں بے پناہ محبت تھی۔ نوجوان کی یہ محبت رنگ لائی۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں اور آپ ان کے سرہانے کھڑے ہو کر پنکھا جھل رہے ہیں اور مکھی اور دوسرے موذی جانوروں کو آپ سے دور کر رہے ہیں۔ تعبیر پوچھی تو بتایا گیا کہ آپ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث پاک کی عظیم خدمت انجام دیں گے اور جھوٹے لوگوں نے جو احادیث خود گھڑ لی ہیں، آپ صحیح احادیث کو ان سے چھانٹ کر علیحدہ کر دیں گے۔ نوجوان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی۔ پھر تاریخ کے اوراق میں حدیث کی وہ شہرہ آفاق کتاب ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی جسے ہم صحیح بخاری کے نام سے جانتے ہیں، اور جسے قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتاب ہونے کا لقب ملا۔

احادیث کا یہ لافانی مجموعہ مرتب کرنے والے ابو عبداللّٰہ محمد بن اسماعیل تھے جنہیں ہم امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں۔ ہم امام بخاری کی قبر پر کھڑے تھے۔ گائیڈ ہمیں پر شکوہ امام بخاری کمپلیکس کے بارے میں بتا رہا تھا، جو تقریباً دو سو کنال رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور سمرقند سے تقریباً پچیس کلومیٹر باہر خرتنگ نامی گاؤں میں واقع ہے۔ حکومت ازبکستان نے اس کمپلیکس کی تعمیر نو اور آرائش پر خصوصی توجہ دی ہے۔ زندہ قومیں اپنے تاریخی ورثہ کی ایسے ہی حفاظت کرتی ہیں۔ ازبکستان کی سیاحت امام بخاری کی قبر پر حاضری دیے بغیر نامکمل ہے۔ میری آنکھیں نم تھیں۔ میں نے دیکھا، میرے ساتھی بھی چپکے چپکے اپنی آنکھیں پونچھ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا میرے آقا، میرے پیارے نبی سے محبت کرنے والے بھی امر ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جن کی بے لوث محنت، مشقت اور علمی کاوشوں سے دین کی نعمت ہم تک منتقل ہوئی۔ شاید میرے ساتھی بھی یہی سوچ رہے تھے۔ میرا ذہن ایک بار پھر بارہ سو سال پیچھے چلا گیا۔

امام بخاری کے والد اسماعیل بن ابراہیم نہایت پاکباز اور رزق حلال کا اہتمام کرنے والے شخص تھے۔ وہ بھی ایک عظیم محدث تھے۔ ان کے ایک شاگرد کہتے ہیں کہ میں امام بخاری کے والد کی وفات کے وقت حاضر تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ میں اپنے کمائے ہوئے مال میں سے ایک درہم بھی مشتبہ چھوڑ کر نہیں جا رہا ہوں۔ بیٹا بھی ایسا ہی بانصیب۔ یہ فخر کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ بھی محدث ہو اور بیٹا بھی محدث بلکہ سید المحدثین۔ امام بخاری کے والد ماجد ان کے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ بچپن ہی میں امام بخاری کی بینائی جاتی رہی۔ والدہ ماجدہ جو پہلے ہی بیوگی کے صدمے سے دوچار تھیں، اس سانحے سے اور غمگین ہو گئیں۔ وہ دن رات روتیں اور دعا کرتیں۔ ایک رات عشاء کے بعد روتے اور دعا کرتے ہوئے انہیں مصلے پر نیند آ گئی۔ خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور انہیں بشارت دی کہ تمہارے رونے اور دعا کرنے سے اللّہ نے تمہارے بچے کی بینائی ٹھیک کر دی ہے۔ صبح ہوئی تو امام بخاری کی بینائی واپس آ چکی تھی۔

آپ کے ہم عصر حاشد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ امام بخاری بصرہ میں پندرہ دن ہمارے ساتھ درس میں بیٹھتے رہے اور کچھ نہ لکھتے۔ ایک دن میں نے آپ کو نہ لکھنے پر ملامت کی تو بولے کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے لاؤ اور اسے مجھ سے زبانی سن لو۔ امام بخاری اس دوران میں پندرہ ہزار سے زیادہ احادیث یاد کر چکے تھے، جن کو انہوں نے اس درستگی کے ساتھ سنایا کہ دوسروں نے بھی بہت سے مقامات پر اپنی تصحیح کی۔

کہتے ہیں انہیں ستر ہزار سے زیادہ احادیث مکمل حوالوں اور روایات کے ساتھ یاد تھیں۔ ایک مرتبہ بغداد کے محدثین نے آپ کا امتحان لینے کی ترکیب سوچی۔ بڑے مجمع میں امتحان لینے کا فیصلہ ہوا۔ سارا شہر یہ منظر دیکھنے کے لیے امڈ آیا۔ آپ کے سامنے دس آدمیوں نے ایک سو احادیث روایات ادل بدل کر کے پڑھیں لیکن آپ ہر حدیث کے بارے میں یہی کہتے رہے کہ میں اس حدیث کو نہیں جانتا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ امام کو احادیث کے بارے میں علم نہیں۔ امام کھڑے ہوئے اور ایک ایک کر کے سب کی احادیث کو ترتیب کے ساتھ بالکل درست کر کے پڑھ کر سنا دیا۔ امام بخاری کے اس خداداد حافظہ اور مہارت پر اہل بغداد حیرت زدہ ہو گئے اور تسلیم کر لیا کہ فن حدیث میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

امام بخاری نے تحصیل علم اور احادیث جمع کرنے کے لیے کئی ملکوں کا سفر کیا۔ سولہ سال بعد آپ اپنے علمی سفر مکمل کر کے بخارا لوٹے۔ ایک مرتبہ حاکم بخارا نے آپ سے درخواست کی کہ آپ دربار شاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے شہزادوں کو صحیح بخاری اور تاریخ کا درس دیا کریں۔ آپ نے کہلا بھیجا کہ میں دربار میں جا کر خوشامدیوں کی فہرست میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ حاکم نے دوباہ کہلوایا کہ پھر شہزادوں کے لیے کوئی وقت مخصوص کر دیں۔ آپ نے جواب دیا کہ میراث نبوت میں کسی امیر غریب کا فرق نہیں۔ اس پر حاکم بخارا آپ کی مخالفت پر اتر آیا اور امن و امان کے بہانے امام کو بخارا سے نکل جانے کا حکم دیا۔ آپ رنجیدہ ہو کر سمرقند چلے آئے۔ ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ حاکم بخارا کے خلاف بغاوت ہوئی۔ اسے گدھے پر پھرایا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ اس کے ساتھی بھی نہایت ذلیل و رسوا ہوئے۔

امام بخاری نے اپنی زندگی کے آخری ایام سمرقند کے نواحی گاؤں خرتنگ میں بسر کیے۔ آپ کی وفات باسٹھ سال کی عمر میں عید الفطر کے دن خرتنگ میں ہوئی۔ اس طرح بخارا کا آفتاب سمرقند کی زمین میں اتر گیا۔ جب آپ کا جسد خاکی قبر میں رکھا گیا تو قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی۔ جاوید چوہدری صاحب داستان مکمل کر چکے تھے۔ ہم نے آنکھیں کھولیں اور 2018 میں واپس آ گئے۔ ہم سب نے امام بخاری کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور واپس روانہ ہو گئے، لیکن ہم اپنے دل خرتنگ میں چھوڑ آئے تھے۔

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email