جمیل احمد
14ستمبر کی چمکتی صبح جب ہم علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ لاہور سے ازبکستان ائر ویز کی فلائٹ سے تاشقند کے لیے پرواز کر رہے تھے تو ذہن میں شاعر مشرق کا یہ شعر گونج رہا تھا:
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاک بخارا و سمر قند
ہمارا کاررواں اکہتر افراد پر مشتمل تھا جس کے روح رواں اور منتظم معروف صحافی اور کالم نگار جناب جاوید چوہدری صاحب تھے۔اس انتہائی دلچسپ اور معلوماتی سفر میں ہم نے تاریخی ورثہ کے حامل شہروں تاشقند، سمرقند اور بخارا کا دورہ کیا جس کے چند مشاہدات پیش خدمت ہیں۔
ازبکستان وسطی ایشیا کا ایک ملک ہے جو 31 اگست 1991 کو سابق سویت یونین سے آزاد ہوا تھا، تاہم سرکاری طور پر ازبکستان کا یوم ازادی ہر سال یکم ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ ملک 12 ریجنز یا صوبوں، ایک خودمختار ریاست اور ایک دارلخلافہ پر مشتمل ہے اور اس کا دارالحکومت تاشقند ہے۔ ازبکستان کی سرحدیں پانچ ممالک قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ ازبکستان کی قومی زبان ازبک ہے، جس کی جڑیں ترکی سے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں تاجک زبان بھی بولی جاتی ہے جو فارسی کے قریب ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ازبک زبان کے تقریباً تین ہزار سے زائد الفاظ اردو میں بولے جاتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہم نے خود بھی کیا، مثلاً نان، سموسہ، مسجد، انار، آپا، حوض، شکر، بہار، ریگستان اور کئی دوسرے الفاظ۔
ازبکستان کے سکولوں میں ذریعہ تعلیم ازبک ہے۔ سوویت یونین کے دور میں روسی زبان بطور ثانوی زبان پڑھائی جاتی تھی جبکہ آزادی کے بعد سے انگریزی بطور ثانوی زبان پڑھائی جاتی ہے۔ ازبکستان قدیم شہروں کی سرزمین ہے، جن میں سے بخارا تقریباً 2500 سال اور سمرقند تقریباً 2700 سال قدیم شہر ہے۔ یہ شہر اپنی مسجدوں اور بزرگوں کے مزارات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ازبکستان کا علاقہ چین اور بحیرہ روم کے درمیان تجارتی راستے کے طور پر بڑی اہمیت رکھتا تھا، جو کہ انہیں قدیم سلک روٹ سے بھی ملاتا تھا۔
ازبکستان میں دنیا کے سونے کے چوتھے اور تانبے کے دسویں بڑے ذخائر ہیں۔ یہ ملک پٹرولیم کے ذخائر سے مالامال ہے۔ ازبکستان کاٹن پیدا کرنے والا اہم ملک بھی ہے۔ اس کے باوجود ازبکستان کی معیشت کو بہت زیادہ مضبوط نہیں کہا جا سکتا۔ ازبکستان کی کرنسی “سوم” ہے۔ ایک پاکستانی روپیہ کے بدلے 65 سوم اور ایک ڈالر کے بدلے 8050 سوم ملتے ہیں۔ جو کرنسی ہم لے کر گئے تھے، اس حساب سے ہم وہاں پہنچتے ہی کروڑ پتی ہو گئے تھے۔
ازبکستان نے آزاد ہوتے ہی اپنا ٹائم زون پاکستان کے مطابق مقرر کر لیا تھا۔ اس اعتبار سے ازبکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی گھڑیاں پاکستانی وقت کے عین مطابق ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ Sustainable Development Solutions Network کی حالیہ رپورٹ کے مطابق خوش رہنے کے لحاظ سے ازبکستان دنیا میں 44 ویں نمبر پر ہے، جبکہ پاکستان اس فہرست میں 75 ویں اور بھارت 133 ویں نمبر پر ہے۔
ازبکستان کے لوگ خوبصورت، مہذب، ملنسار، سادہ اور متواضع ہیں۔ صفائی یہاں کا نمایاں وصف ہے۔ ہم نے ہوٹل میں، سڑک پر، ریستوران میں یا عمارات میں کہیں بھی کوڑا کرکٹ نہیں دیکھا۔ یہ لوگ صفائی کو بے انتہا اہمیت دیتے ہیں۔ اگرچہ یہاں کا انفراسٹرکچر بہت عالی شان نہیں ہے، تاہم ہمیں ہر جگہ صفائی ستھرائی کا اعلیٰ معیار نظر آیا۔ روسی دور کی بہت سی عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ البتہ نئی عمارتیں بھی تعمیر ہو رہی ہیں۔
لوگوں کے رویوں کی بات کریں تو اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کرتا چلوں۔ تاشقند میں ایک ڈنر کے بعد ہم اپنے گروپ سے بچھڑ گئے۔ ہوٹل میں ڈنر کرتی ہوئی ایک فیملی کو ہماری پریشانی کا اندازہ ہوا تو وہ ہمارے پاس آئے اور انگریزی میں کہا: لگتا ہے آپ اپنے گروپ سے الگ ہو گئے ہیں، ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ ہم نے شکریہ کے ساتھ کہا کہ کوئی بات نہیں، ہم اپنے گروپ کو تلاش کر لیں گے۔ ہماری ناکام تلاش جاری تھی، اور ہماری مشکل کو انہوں نے بھانپ لیا تھا۔ وہ پھر ہمارے پاس آئے اور ذرا تاکید کے ساتھ مدد کی پیشکش کی اور کہا کہ وہ ہمیں ہمارے ہوٹل تک چھوڑ آئیں گے۔ اس مرتبہ ہم نے ان کی پیشکش قبول کر لی۔ انہوں نے تقریباً 30 منٹ کا اضافی فاصلہ طے کر کے ہمیں ہوٹل تک ڈراپ کیا۔ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ راستے میں پاکستان کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ یہ تاشقند میں ہمارے قیام کا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔
ازبکستان کے کھانوں کی بات کریں تو پلاؤ یہاں کا مقبول ترین کھانا ہے۔ کہتے ہیں پلاؤ کا اصلی وطن ازبکستان ہی ہے۔ مقامی زبان میں بھی اسے پلاؤ ہی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کباب کو بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ سلاد، سبزیوں اور فروٹ کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ کھانے سے پہلے سلاد اور فروٹ وافر مقدار میں پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ سبزیاں کچی، جبکہ کچھ کو سرکہ میں ڈبو کر سلاد تیار کیے جاتے ہیں۔ ہر کھانے میں وہاں کا مخصوص نان ضرور شامل ہوتا ہے۔
کھانے میں مرچ مصالحے اور آئل کا استعمال بہت ہی کم ہے۔ چکن، مٹن، بیف اور فش بھی کھانے میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں تمام سبزیاں اور فصلیں بغیر کھاد کے یعنی آرگینک طریقے سے اگائی جاتی ہیں۔ شاید اسی لیے ہمیں ان کا ذائقہ دیسی سا لگا۔ کھانے میں چاول بھی پیش کیے گئے جو ہمارے موٹے چاول سے مشابہت رکھتے تھے۔ یہاں ہمیں پاکستانی چاول کی خوبصورتی، خوشبو اور ذائقے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ کباب بہت عمدہ تیار کیے جاتے ہیں لیکن مرچ مصالحہ کے بغیر۔ قصہ مختصر، کھانے پاکستانی کھانوں کے مقابلے میں قدرے پھیکے لیکن غذائیت کے اعتبار سے صحت بخش ہیں۔ محترم قارئین! ان شاءاللہ آئندہ اقساط میں ازبکستان کی چند مشہور شخصیات اور تاریخی مقامات کی بات کریں گے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses