Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

احساس شہریت

احساس شہریت

جمیل احمد

شاہراہ نئی تعمیر ہوئی تھی۔ چند ماہ قبل اس پر سفر کا موقع ملا تو ڈرائیورز کی رہنمائی کے لیے نصب مختلف علامات اور ہدایات پر مشتمل سفید حاشیے والے آسمانی رنگ کے بورڈ سڑک کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔ ٹریفک کی روانی میں خلل سے بچنے کے لیے کم از کم دو مقامات پر لکھا تھا،ٍ “یہاں گاڑی دھونا منع ہے”۔ چند روز قبل اسی شاہراہ پر دوبارہ سفر کیا۔ یار لوگ لفظ “منع” مٹا کر عین اسی جگہ پر مزے سے گاڑیاں دھو رہے تھے۔ ٹریفک کا کیا ہے، وہ جیسے تیسے چلتی رہے گی۔ شہر میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر کے مکینوں یا مارکیٹ میں دکانداروں نے اپنی ضرورت کے تحت سڑک کی کھدائی کر کے پانی یا گیس کی پائپ لائن گزار لی۔ انہوں نے اپنی ضرورت تو پوری کر لی لیکن سیمنٹ اور ریت کے چند بیلچوں سے ہزاروں شہریوں کو فائدہ پہنچانے والی سڑک کی مرمت کرنا ضروری نہ سمجھا۔ اب وہاں گڑھا ہے، جہاں سے ہر شہری گڑھا کھودنے والوں کو “دعائیں” دیتا ہوا گزر جاتا ہے۔

ٹرین کی آمد کی وجہ سے ریلوے پھاٹک پر ٹریفک رکی ہوئی ہے۔ دونوں طرف اپنی اپنی لین میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیں۔ اتنے میں پیچھے سے ایک گاڑی آگے آ کر ایک اور لین “تخلیق” کر لیتی ہے۔ ڈرائیور کا خیال ہے، اس طرح وہ دوسروں سے پہلے پھاٹک کراس کر لے گا۔ اس کی پیروی میں دوسری گاڑیاں بھی نئی لین میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اب پھاٹک کے دونوں طرف ڈبل لین بن چکی ہے۔ ٹرین گزر چکی ہے لیکن ٹریفک چل نہیں رہی۔ آگے جا کر دیکھا، ڈبل بلکہ ٹرپل لین کی وجہ سے گاڑی گزرنے کا راستہ نہیں بچا۔ جنہیں جلدی تھی وہ سب سے مشکل میں ہیں۔ خدا خدا کر کے کافی دیر کے بعد کچھوے کی رفتار سے ٹریفک چلنا شروع ہوئی۔ جو کام پانچ منٹ میں ہو سکتا تھا، ایک گھنٹے میں ہوا، وہ بھی خاصی تکلیف برداشت کرنے کے بعد۔ اسی بے ہنگم ہجوم میں کوئی ایمبولینس پھنس سکتی ہے، اور اس میں خدانخواستہ ہمارا کوئی عزیز بھی ہو سکتا ہے۔ یہی چند سیکنڈ کی جلدی ہمارے گھنٹوں ضائع کروا دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منظم زندگی

کئی بار ایسا ہوا، میں نے بائیں طرف مڑنے کے لیے انڈیکیٹر لگایا۔ پیچھے سے آنے والے موٹر سائیکل سوار نے اسی جانب سے اوورٹیک کرنا ضروری سمجھا۔ اگر میں احتیاط کا مظاہرہ نہ کرتا تو حادثہ یقینی تھا۔ پیدل چلنے والے بھی کسی سے کم نہیں۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر سڑک پار کرنے کے لیے لوہے کے پل تعمیر کیے گئے ہیں، لیکن وہی دو منٹ کی جلدی، سڑک نیچے ہی سے پار کرنی ہے، چاہے جان کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ چند مثالیں ہمارے احساس شہریت کی عکاسی کرتی ہیں۔

احساس شہریت کیا ہے؟ شہریت کی اصطلاح کسی شخص اور ریاست کے مابین تعلق کو ظاہرکرتی ہے۔ شہریت جہاں ایک ملک میں رہنے، کام کرنے اورسیاسی زندگی میں حصہ لینے کے حق کے طور پر دیکھی جاتی ہے، وہیں یہ دوسرے بہت سے پہلوؤں مثلاً ملکی قوانین کے احترام، مذہبی اور جمہوری حقوق و فرائض، انسانی حقوق، معیشت، معاشرت، قانون کی حکمرانی اور عالمی برادری کے ایک فرد کے طور پر ہمارے کردار کا احاطہ بھی کرتی ہے۔اس لحاظ سے احساس شہریت ملکی سیاسی نظام، معاشی عمل، اداروں، قوانین، حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کا تقاضا کرتا ہے۔

دیکھا جائے تو شہریت ہماری زندگی کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں یعنی ووٹ دینے سے لے کر رضاکارانہ خدمات ، معاشی سرگرمیوں سے ثقافتی زندگی اور ملازمت سے جرم و سزا پر محیط ہے۔موجودہ دور میں احساس شہریت ہم سے یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ بطور شہری ہم معاشرے کی فلاح و بہبود میں فعال کردار ادا کریں۔ اس احساس کے نتیجے میں اعلیٰ شہری اقدار کا حامل شخص اپنے کام کو سر انجام دینے کے لیے شارٹ کٹ، بددیانتی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کا سہارا نہیں لیتا۔ یہ بات طے ہے کہ جس ریاست کے باشندے اعلیٰ احساس شہریت کے مالک ہوں، وہ بہت جلد دنیا میں اپنا مقام پیدا کر لیتی ہے۔

تو ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کب تک حقوق کا رونا روتے ہوئے حکومت یا اداروں کو قصور وار ٹھہراتے رہیں گے۔ اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے محض حقوق کی توقع رکھنے سے اجتماعی طور پر ہمارے معاشرے میں سدھار ممکن نہیں۔ یہ بات بجا کہ شہریت کے اعتبار سے حقوق و فرائض کا معاملہ دو طرفہ ہے، لیکن اداروں کی کوتاہی کو جواز بنا کر ہماری انفرادی ذمہ داریاں معطل نہیں ہو جاتیں۔

قرآنی تعلیمات ہوں یا احادیث مبارکہ، ہمیں جا بجا اپنی انفرادی ذمہ داریاں پوری کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں جہاں ہمیں اپنے اقرار ، عہد اور پیمان بالفاظ دیگر ایگریمنٹ پورے کرنے، رشتہ داروں، مسافروں اور محتاجوں کو ان کا حق ادا کرنے، اچھی بات کرنے اور اسی طرح کی دیگر انفرادی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں ایک دوسرے کا مال ناحق کھانے، فضول خرچی کرنے یعنی وسائل ضائع کرنے، غیبت اور بد گوئی کرنے، ناحق کسی کی جان لینے، اجازت لینے اور سلام کیے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونے، فضول باتیں کرنےاور کثرت سے سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی کثرت سے معاشرتی بھلائی کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں کتنی خوب صورت تلقین کی گئی ہے کہ: “اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔”

ایک اور حدیث مبارکہ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں: “میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو روز قیامت نماز، روزے اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور وہ بھی آ جائے گا جسے اس نے گالی دی ہو گی، جس کسی پر بہتان لگایا ہو گا، جس کسی کا مال کھایا ہوگا، جس کسی کا خون بہایا ہوگا اور جس کسی کو مارا پیٹا ہوگا، اس (مظلوم) کو اس کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی، اور اگر اس کے ذمے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان (حق داروں) کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”

یہ اور اس طرح کی بے شمار تعلیمات دراصل ہمیں دنیوی زندگی کو خوب صورت بنا کر اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر کے اللہ کی رضا حاصل کرنے پر ابھارتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں صرف ملکی قوانین ہی نہیں بلکہ دینی تعلیمات میں بھی ہم سے ایک بہترین شہری بننے کی توقع رکھی گئی ہے۔ گویا احساس شہریت کے بغیر ہم اچھے مسلمان بھی نہیں کہلائے جا سکتے۔

اگر ہم نے دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا وقار بلند کرنا ہے، اپنے گھر، گاؤں اور شہر میں مثالی ماحول پیدا کرنا ہے تو ملکی قوانین کی روشنی میں شہریوں کی آگاہی کے ساتھ ساتھ سکول ہی سے احساس شہریت کی ترویج کا اہتمام کرنا ہوگا۔ بچوں میں احساس شہریت اجاگر کرنے کے لیے سکول کی سطح پر سرگرمیاں منعقد کی جائیں، انہیں نصاب اور درسی کتب کا حصہ بنایا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ شہریت کے تقاضے پورے کرنا ہمارے بچوں کی شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔

3 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email